ZARD PATTON KI BAHAR
By: RAM LAL
-
Rs 450.00
- Rs 500.00
- 10%
You save Rs 50.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
اصنافِ ادب میں خود نوشت، سوانح عمری، سفر نامہ اور خطوط اس لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ یہ ہر خاص و عام کا دامنِ دل کھینچ لیتے ہیں اور ان کے مطالعے سے قارئین کے ذوقِ تجسّس کو یک گونہ تسکین ملتی ہے۔ ہر چند یہ تینوں صنفیںاپنے عناصرِ ترکیبی کے لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی عنصر قدر مشترک کا درجہ ضرور رکھتا ہے اور اسی قدر مشترک کی بنیاد پر کبھی کبھی یہ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیوں کا رُوپ اختیار کر لیتی ہیں۔ دراصل قاری کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بےحجابانہ فن کار کے دل و دماغ میں اُتر جائے اور اس خواہش کی تکمیل میں یہ اصناف بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ کوئی فن کار ان اصناف کی وجہ سے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کر لے لیکن یہ بہرحال ہیں ثانوی اصناف۔ میرؔ، غالبؔ، شبلیؔ، مہدی افادی، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی، جوشؔ اور احسانؔ دانش وغیرہ بنیادی طور پر شاعر ہیں یا ادیب و نقّاد لیکن ان میں سے ہر ایک نے اِن ثانوی اصناف میں سے کسی نہ کسی کو اس طرح اپنایا کہ اب اس کا شمار ان کے امتیازات میں ہوتا ہے۔ اگر اسے ایک کلیہ مان لیا جائے تو اس کا اطلاق رام لعل کے سفر نامہ ’’زرد پتّوں کی بہار‘‘ پر زیادہ بہتر طور پر ہوتا ہے۔ رام لعل بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور افسانہ نگار بھی اتنے قد آور کہ انھوں نے اس صنف کو نئی سمت و رفتار عطا کی اور افسانہ نگاروں کی اس نئی نسل کو حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری سے قریب تر کر دیا جو منزل کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اور جسے ’’برگ حشیش‘‘ کو ’’شاخ نبات‘‘ بتانے والے حضرات بہکا رہے تھے۔
کوئی دو سال پہلے رام لعل نے ہندوستان سے پاکستان کا سفر کیا تھا۔’’زرد پتوں کی بہار‘‘ اسی سفر کی یاد گار ہے۔ لوگ اپنے ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں لیکن رام لعل کے اس سفر کو اس طرح کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ تو اُن کا وطن سے وطن کو سفر تھا۔ میانوالی (پاکستان) اُن کی جنم بھومی ہے لیکن اُنھوں نے تاریخ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا۔ جنم بھومی کی یاد کسے نہیں آتی، رام لعل بھی اس یاد کو سینے سے لگائے ہوئے تھے اور یادوں کے سائے میں اُنھوں نے زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا اور جب اُن کی عمر تجربہ کرتے رہنے کے حصار سے نکل کر تجربات کو عبرت و بشارت کا درجہ عطا کرنے کے قلم رو میں داخل ہوئی تو جس انسانی فطرت کو اُنھوں نے اپنے سینے میں لوریاں دے دے کر سُلائے رکھا تھا، وہ بیدار ہو گئی اور اُس نے رام لعل کو ان کی جنم بھومی میں پہنچا کے دم لیا۔
’’زرد پتّوں کی بہار‘‘ رام لعل کا نہیں بلکہ انسانی فطرت اور جبلّت کا سفر نامہ ہے، یہ ایک فرد کا نہیں، نسل سے نسل کا سفر نامہ ہے۔ رام لعل کے اس سفر نامے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا دل دھڑک رہا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہی ادبی تخلیق لازوال بھی ہوتی ہے اور آفاقی بھی،جس میں انسانیت اپنے اصل خط و خال کے ساتھ نمایاں ہو جائے۔
اصنافِ ادب میں خود نوشت، سوانح عمری، سفر نامہ اور خطوط اس لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ یہ ہر خاص و عام کا دامنِ دل کھینچ لیتے ہیں اور ان کے مطالعے سے قارئین کے ذوقِ تجسّس کو یک گونہ تسکین ملتی ہے۔ ہر چند یہ تینوں صنفیںاپنے عناصرِ ترکیبی کے لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی عنصر قدر مشترک کا درجہ ضرور رکھتا ہے اور اسی قدر مشترک کی بنیاد پر کبھی کبھی یہ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیوں کا رُوپ اختیار کر لیتی ہیں۔ دراصل قاری کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بےحجابانہ فن کار کے دل و دماغ میں اُتر جائے اور اس خواہش کی تکمیل میں یہ اصناف بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ کوئی فن کار ان اصناف کی وجہ سے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کر لے لیکن یہ بہرحال ہیں ثانوی اصناف۔ میرؔ، غالبؔ، شبلیؔ، مہدی افادی، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی، جوشؔ اور احسانؔ دانش وغیرہ بنیادی طور پر شاعر ہیں یا ادیب و نقّاد لیکن ان میں سے ہر ایک نے اِن ثانوی اصناف میں سے کسی نہ کسی کو اس طرح اپنایا کہ اب اس کا شمار ان کے امتیازات میں ہوتا ہے۔ اگر اسے ایک کلیہ مان لیا جائے تو اس کا اطلاق رام لعل کے سفر نامہ ’’زرد پتّوں کی بہار‘‘ پر زیادہ بہتر طور پر ہوتا ہے۔ رام لعل بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور افسانہ نگار بھی اتنے قد آور کہ انھوں نے اس صنف کو نئی سمت و رفتار عطا کی اور افسانہ نگاروں کی اس نئی نسل کو حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری سے قریب تر کر دیا جو منزل کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اور جسے ’’برگ حشیش‘‘ کو ’’شاخ نبات‘‘ بتانے والے حضرات بہکا رہے تھے۔
کوئی دو سال پہلے رام لعل نے ہندوستان سے پاکستان کا سفر کیا تھا۔’’زرد پتوں کی بہار‘‘ اسی سفر کی یاد گار ہے۔ لوگ اپنے ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں لیکن رام لعل کے اس سفر کو اس طرح کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ تو اُن کا وطن سے وطن کو سفر تھا۔ میانوالی (پاکستان) اُن کی جنم بھومی ہے لیکن اُنھوں نے تاریخ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا۔ جنم بھومی کی یاد کسے نہیں آتی، رام لعل بھی اس یاد کو سینے سے لگائے ہوئے تھے اور یادوں کے سائے میں اُنھوں نے زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا اور جب اُن کی عمر تجربہ کرتے رہنے کے حصار سے نکل کر تجربات کو عبرت و بشارت کا درجہ عطا کرنے کے قلم رو میں داخل ہوئی تو جس انسانی فطرت کو اُنھوں نے اپنے سینے میں لوریاں دے دے کر سُلائے رکھا تھا، وہ بیدار ہو گئی اور اُس نے رام لعل کو ان کی جنم بھومی میں پہنچا کے دم لیا۔
’’زرد پتّوں کی بہار‘‘ رام لعل کا نہیں بلکہ انسانی فطرت اور جبلّت کا سفر نامہ ہے، یہ ایک فرد کا نہیں، نسل سے نسل کا سفر نامہ ہے۔ رام لعل کے اس سفر نامے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا دل دھڑک رہا ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہی ادبی تخلیق لازوال بھی ہوتی ہے اور آفاقی بھی،جس میں انسانیت اپنے اصل خط و خال کے ساتھ نمایاں ہو جائے۔