ZANGAAR
By: AAMIR KHAKWANI
-
Rs 540.00
- Rs 900.00
- 40%
You save Rs 360.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
عامر خاکوانی سے میری ایک یادگار ملاقات ترکی میں ہوئی تھی، جہاں ہم چند دوسرے اہلِ قلم کے ساتھ ایک تنظیم کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے۔ میرا ایک عجیب خیال ہے جو کبھی غلط اور کبھی درست نکلتا ہے کہ ’’سوکھے سڑے‘‘ لوگ عموماً چڑچڑے اور زندگی بیزار ہوتے ہیں جبکہ موٹے صحت مند لوگوں کی سوچیں اور رویے مثبت ہوتے ہیں۔ عامر خاکوانی کے جثے کو دیکھ کر میں نے پہلے ہی ان کی شخصیت کا اندازہ لگا لیا تھا، یہ اندازہ دورانِ سفر درست نکلا اور اب جب میں نے ان کے منتخب کالموں کا مطالعہ کیا ہے تو جی چاہتا ہے کہ ان سے باقاعدہ دوستی کی جائے۔ عامر کے سبھی کالموں سے کبھی مجھے اتفاق ہوا ہے اور نہ عامر میرے سبھی کالموں سے اتفاق کی غلطی کر سکتا ہے۔ تاہم میں نے ان کے منتخب کالم جو وقتی موضوعات پر نہیں بلکہ ابدی موضوعات کے حامل ہیں، پڑھے تو مجھے ہر کالم ’’جہانِ دگر‘‘ نظر آیا۔ ادب، فلم، حالات سے مایوسی کے بجائے جدوجہد پر یقینِ کامل، یعنی وہی ایک مثبت شخص ان کے کالموں میں نظر آیاجس کا اندازہ میں نے انہیں ایک نظر دیکھ کر لگا لیا تھا۔سب سے خوب صورت بات ان کی تحریر ہے۔ ثقیل سے ثقیل موضوعات پر لکھی ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے ان کے قارئین آدھے راستے میں ’’خداحافظ‘‘ کہتے نظر نہیں آتے بلکہ خود کو آخر تک ساتھ چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یار عامر خاکوانی ! تمہارے ان منتخب کالموں سے میں ’’جیلس‘‘ ہوگیا ہوں۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔
عطاء الحق قاسمی
2012ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتاب کے دیباچے میں عرض کیا تھا: عامر خاکوانی میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں ،اب بھی ہیں۔ اگرچہ کچھ تنقیدی نکات ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ جس انشراح سے عامر خاکوانی لکھتے ہیں عصری صحافت میں اس کی مثال کم ہو گی۔ سوچ سمجھ کر طے کیا گیا مؤقف، رواں اور بے ریا لہجہ۔ غیر جانبداری مگر دکھاوے کی نہیں۔ نقطۂ نظر اور عقیدہ رکھتے ہیں مگر لازماً کسی گروہ کے حامی یا مخالف نہیں۔ آزادمصنف کی روش یہی ہوتی ہے۔ یہ تحریر یں پڑھتے ہوئے والٹیئر یاد آتا ہے ، جس نے کہا تھا، "Every word of a writer is an act of generosity" لکھنے والے کا ہر لفظ سخاوت کا مظہر ہوتاہے ۔ جی جان سے ، خلوصِ قلب سے کی جانے والی عنایت ۔ شرط یہ کہ وہ دل صداقت کا مسکن ہو ، تلاشِ حق کا آرزومند!
ہارون الرشید
عامر خاکوانی ان لکھنے والوں میں سے ہیں جن کا میں شروع ہی سے مداح رہا ہوں اور سچّی بات یہ ہے کہ ان کے کالم کا میں ہمیشہ انتظار کرتا ہوں۔ ان کے لیے میرے ذہن میں یہی تاثر ہے کہ یہ شخص بیش بہا پڑھتا ہے اور پڑھنے کے بعد اسے اتنے اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ کمال ہوجاتا ہے۔ یہی عامر خاکوانی کی تحریر کا حُسن ہے۔ میں کبھی کبھی کوشش کرتا ہوں کہ کاش میں بھی ایسی خوب صورتی کے ساتھ لکھ سکتا اور اتنے اختصار کے ساتھ اتنی زیادہ معلومات قارئین تک پہنچا سکتا۔
عامر خاکوانی سے میری ایک یادگار ملاقات ترکی میں ہوئی تھی، جہاں ہم چند دوسرے اہلِ قلم کے ساتھ ایک تنظیم کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے۔ میرا ایک عجیب خیال ہے جو کبھی غلط اور کبھی درست نکلتا ہے کہ ’’سوکھے سڑے‘‘ لوگ عموماً چڑچڑے اور زندگی بیزار ہوتے ہیں جبکہ موٹے صحت مند لوگوں کی سوچیں اور رویے مثبت ہوتے ہیں۔ عامر خاکوانی کے جثے کو دیکھ کر میں نے پہلے ہی ان کی شخصیت کا اندازہ لگا لیا تھا، یہ اندازہ دورانِ سفر درست نکلا اور اب جب میں نے ان کے منتخب کالموں کا مطالعہ کیا ہے تو جی چاہتا ہے کہ ان سے باقاعدہ دوستی کی جائے۔ عامر کے سبھی کالموں سے کبھی مجھے اتفاق ہوا ہے اور نہ عامر میرے سبھی کالموں سے اتفاق کی غلطی کر سکتا ہے۔ تاہم میں نے ان کے منتخب کالم جو وقتی موضوعات پر نہیں بلکہ ابدی موضوعات کے حامل ہیں، پڑھے تو مجھے ہر کالم ’’جہانِ دگر‘‘ نظر آیا۔ ادب، فلم، حالات سے مایوسی کے بجائے جدوجہد پر یقینِ کامل، یعنی وہی ایک مثبت شخص ان کے کالموں میں نظر آیاجس کا اندازہ میں نے انہیں ایک نظر دیکھ کر لگا لیا تھا۔سب سے خوب صورت بات ان کی تحریر ہے۔ ثقیل سے ثقیل موضوعات پر لکھی ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے ان کے قارئین آدھے راستے میں ’’خداحافظ‘‘ کہتے نظر نہیں آتے بلکہ خود کو آخر تک ساتھ چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یار عامر خاکوانی ! تمہارے ان منتخب کالموں سے میں ’’جیلس‘‘ ہوگیا ہوں۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔
عطاء الحق قاسمی
2012ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتاب کے دیباچے میں عرض کیا تھا: عامر خاکوانی میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں ،اب بھی ہیں۔ اگرچہ کچھ تنقیدی نکات ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ جس انشراح سے عامر خاکوانی لکھتے ہیں عصری صحافت میں اس کی مثال کم ہو گی۔ سوچ سمجھ کر طے کیا گیا مؤقف، رواں اور بے ریا لہجہ۔ غیر جانبداری مگر دکھاوے کی نہیں۔ نقطۂ نظر اور عقیدہ رکھتے ہیں مگر لازماً کسی گروہ کے حامی یا مخالف نہیں۔ آزادمصنف کی روش یہی ہوتی ہے۔ یہ تحریر یں پڑھتے ہوئے والٹیئر یاد آتا ہے ، جس نے کہا تھا، "Every word of a writer is an act of generosity" لکھنے والے کا ہر لفظ سخاوت کا مظہر ہوتاہے ۔ جی جان سے ، خلوصِ قلب سے کی جانے والی عنایت ۔ شرط یہ کہ وہ دل صداقت کا مسکن ہو ، تلاشِ حق کا آرزومند!
ہارون الرشید
عامر خاکوانی ان لکھنے والوں میں سے ہیں جن کا میں شروع ہی سے مداح رہا ہوں اور سچّی بات یہ ہے کہ ان کے کالم کا میں ہمیشہ انتظار کرتا ہوں۔ ان کے لیے میرے ذہن میں یہی تاثر ہے کہ یہ شخص بیش بہا پڑھتا ہے اور پڑھنے کے بعد اسے اتنے اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ کمال ہوجاتا ہے۔ یہی عامر خاکوانی کی تحریر کا حُسن ہے۔ میں کبھی کبھی کوشش کرتا ہوں کہ کاش میں بھی ایسی خوب صورتی کے ساتھ لکھ سکتا اور اتنے اختصار کے ساتھ اتنی زیادہ معلومات قارئین تک پہنچا سکتا۔