Wurood e Masud
By: Masud Hussain khan
-
Rs 810.00
- Rs 900.00
- 10%
You save Rs 90.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
’وُرودِ مسعود‘ پیرِ ہفتاد سالہ کے پختہ کار ذہن و دماغ کی ’سیرس‘ گفتگو ہی کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں ’بازیچۂ اطفال‘ کے معصوم جلوؤں کی جھلک، مستِ بہار اور نوبہارِ ناز کا تذکرہ، بتانِ فرنگ اور نازنینانِ پیرس کے جلوے اور ’عشقِ برقع نشیں‘ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یورپ اور ہندوستان کے موقراداروں کی ادبی و تہذیبی تصویریں، جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے سیاسی داؤپیچ بھی اس کے مشمولات میں اہم ہیں۔ اشخاص اور اداروں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ نباہنے میں ’جلوۂ گل‘ سے ’موجِ خوں‘ تک ان کے تجربات اور احساسات کی بازگشت خودنوشت کے اوراق کی زینت ہے۔ مسعود صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بڑی دیانتداری اور عالی ہمّتی سے اپنے سفرِحیات کی داستان میں وہ واقعات اور احساسات بھی قلم بند کر دیے جن کے لکھنے سے نقضِ امن کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے قاری کو رازِدرونِ میخانہ میں شریک کرنا چاہتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ
بے چشم دل نہ کر ہوسِ سیرِ لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورقِ انتخاب ہے
(وہاج الدین احمد علوی)
ڈاکٹر مسعود حسین خاں صاحب کیا کیا کچھ ہیں، اس کا بیان ایک دفتر کا متقاضی ہے۔ علم بٹورنا اور علم بانٹنا آپ کا مشغلہ رہا ہے۔ مسعود حسین خاں صاحب کا تعلق قایم گنج کی پٹھانوں کی مشہور بستی میں ایک معروف پٹھان خاندان سے ہے۔ وہ پیدا ہونے کے لیے پہلی بڑی جنگ کے خاتمے کا انتظار کر رہے تھے۔ شاید یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ انگریزوں نے قومی رہنمائوں کو جو جھانسہ دے رکھا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر آزادی عنایت ہو گی، اس کا کیا حشر ہوتا ہے۔ آپ بیتی لکھنا مشکل کام ہے اور اس کا ادب میں ایک مقام ہے۔ آپ بیتی لکھنا ایک مشکل راہ پر قدم رکھنا ہے۔ توازن کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں شخصی پسند یا ناپسند واقعات پر کوئی رنگ چڑھا دے لیکن ’’ورودِ مسعود‘‘ آپ کے سامنے ہے۔ بعض تلخ باتیں آ گئی ہیں کیوں کہ مسعود صاحب انہیں چُھپا نہیں سکتے تھے۔ ان کی بے باکی اورصاف گوئی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
ڈاکٹر راج بہادگوڑ
ورودِ مسعود ایک کامیاب خودنوشت ہے..... اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا مصنف راست گو ہے اور اس نے اپنی داستانِ حیات اس طرح بیان کی ہے کہ نہ تو اس کی ذات ، واقعات، ماحول، مقامات اور فضا کے بیان میں گم ہے اور نہ اس قدر نمایاں کہ یہ محسوس ہو کہ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد خود اپنے کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔
ڈاکٹر صغریٰ مہدی
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانے کی آپ بیتیوں میں اس آپ بیتی کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے تو غلط نہ ہو گا۔
پروفیسر ظہیر احمد صدیقی
ڈاکٹر مسعود حسین خاں ہمارے ان اہلِ قلم میں سے ہیں جن کے علمی کام، اُردو زبان کا سرمایہ افتخار ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے ممنون ہیں کہ ہم نے ان کی کتابوں کے مطالعے سے خوف اور بے آرامی کے علاوہ علم بھی حاصل کیا۔ گو یہ علم اب تک ہماری کسی حرکت سے ظاہر نہیں ہوا، لیکن یہ فخر کیا کم ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب کے خوانِ علم کے ریزہ چین ہیں۔
مشفق خواجہ
میرے استادِ محترم پروفیسر مسعود حسین خاں اُردو کے صفِ اوّل کے ادیب، نقّاد اور ماہرِلسانیات ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر بھی ہیں، لیکن ان کی علمی اور ادبی حیثیت ان کی شاعرانہ شخصیت پر کچھ اس طرح چھا گئی ہے کہ بعض لوگ تو اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کہ مسعود صاحب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ اُردو کے مسائل پر انہوں نے جو اداریے لکھے تھے اور جو بعد میں ’اُردو کا المیہ‘ کے نام سے شائع ہوئے تھے وہ اُردو کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ اس موضوع پر ان کے تمام مضامین کے مجموعے کا ایک ایک لفظ مستند ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم
ایک مصنف کی حیثیت سے ڈاکٹر مسعود حسین خاں کی شخصیت کثیر جہاتی ہے۔ ماہرِ لسانیات، محقق، نقّاد، اُردو تحریک کا فعّال قلم کار، شیاع اور آپ بیتی نگار۔ تحقیق ان کی ادبی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ ڈاکٹر مسعود حسین اُردو کے ممتاز محققوں میں سے ہیں۔ تدوین کے میدان میں ان کے حریف کم ہیں۔ ان کی قدرشناسی میں مَیں کسی سے پیچھے نہیں۔
پروفیسر گیان چند جین
پروفیسر مسعود حسین خاں اُردو علم و ادب کی ایک قدآور اور سربرآوردہ شخصیت ہیں۔ گیتوں اور غزلوں سے لے کر تحقیق و تنقید، لسانیات، اسلوبیات، اقبالیات، صوتیات اور سوانح تک ان کے علمی تبحر اور فنی سلیقے نے تاریخ زبان اُردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہنے والے کارنامے انجام دیے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی
’وُرودِ مسعود‘ پیرِ ہفتاد سالہ کے پختہ کار ذہن و دماغ کی ’سیرس‘ گفتگو ہی کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں ’بازیچۂ اطفال‘ کے معصوم جلوؤں کی جھلک، مستِ بہار اور نوبہارِ ناز کا تذکرہ، بتانِ فرنگ اور نازنینانِ پیرس کے جلوے اور ’عشقِ برقع نشیں‘ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یورپ اور ہندوستان کے موقراداروں کی ادبی و تہذیبی تصویریں، جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے سیاسی داؤپیچ بھی اس کے مشمولات میں اہم ہیں۔ اشخاص اور اداروں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ نباہنے میں ’جلوۂ گل‘ سے ’موجِ خوں‘ تک ان کے تجربات اور احساسات کی بازگشت خودنوشت کے اوراق کی زینت ہے۔ مسعود صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بڑی دیانتداری اور عالی ہمّتی سے اپنے سفرِحیات کی داستان میں وہ واقعات اور احساسات بھی قلم بند کر دیے جن کے لکھنے سے نقضِ امن کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے قاری کو رازِدرونِ میخانہ میں شریک کرنا چاہتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ
بے چشم دل نہ کر ہوسِ سیرِ لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورقِ انتخاب ہے
(وہاج الدین احمد علوی)
ڈاکٹر مسعود حسین خاں صاحب کیا کیا کچھ ہیں، اس کا بیان ایک دفتر کا متقاضی ہے۔ علم بٹورنا اور علم بانٹنا آپ کا مشغلہ رہا ہے۔ مسعود حسین خاں صاحب کا تعلق قایم گنج کی پٹھانوں کی مشہور بستی میں ایک معروف پٹھان خاندان سے ہے۔ وہ پیدا ہونے کے لیے پہلی بڑی جنگ کے خاتمے کا انتظار کر رہے تھے۔ شاید یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ انگریزوں نے قومی رہنمائوں کو جو جھانسہ دے رکھا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر آزادی عنایت ہو گی، اس کا کیا حشر ہوتا ہے۔ آپ بیتی لکھنا مشکل کام ہے اور اس کا ادب میں ایک مقام ہے۔ آپ بیتی لکھنا ایک مشکل راہ پر قدم رکھنا ہے۔ توازن کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں شخصی پسند یا ناپسند واقعات پر کوئی رنگ چڑھا دے لیکن ’’ورودِ مسعود‘‘ آپ کے سامنے ہے۔ بعض تلخ باتیں آ گئی ہیں کیوں کہ مسعود صاحب انہیں چُھپا نہیں سکتے تھے۔ ان کی بے باکی اورصاف گوئی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
ڈاکٹر راج بہادگوڑ
ورودِ مسعود ایک کامیاب خودنوشت ہے..... اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا مصنف راست گو ہے اور اس نے اپنی داستانِ حیات اس طرح بیان کی ہے کہ نہ تو اس کی ذات ، واقعات، ماحول، مقامات اور فضا کے بیان میں گم ہے اور نہ اس قدر نمایاں کہ یہ محسوس ہو کہ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد خود اپنے کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔
ڈاکٹر صغریٰ مہدی
حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانے کی آپ بیتیوں میں اس آپ بیتی کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے تو غلط نہ ہو گا۔
پروفیسر ظہیر احمد صدیقی
ڈاکٹر مسعود حسین خاں ہمارے ان اہلِ قلم میں سے ہیں جن کے علمی کام، اُردو زبان کا سرمایہ افتخار ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے ممنون ہیں کہ ہم نے ان کی کتابوں کے مطالعے سے خوف اور بے آرامی کے علاوہ علم بھی حاصل کیا۔ گو یہ علم اب تک ہماری کسی حرکت سے ظاہر نہیں ہوا، لیکن یہ فخر کیا کم ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب کے خوانِ علم کے ریزہ چین ہیں۔
مشفق خواجہ
میرے استادِ محترم پروفیسر مسعود حسین خاں اُردو کے صفِ اوّل کے ادیب، نقّاد اور ماہرِلسانیات ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر بھی ہیں، لیکن ان کی علمی اور ادبی حیثیت ان کی شاعرانہ شخصیت پر کچھ اس طرح چھا گئی ہے کہ بعض لوگ تو اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کہ مسعود صاحب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ اُردو کے مسائل پر انہوں نے جو اداریے لکھے تھے اور جو بعد میں ’اُردو کا المیہ‘ کے نام سے شائع ہوئے تھے وہ اُردو کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ اس موضوع پر ان کے تمام مضامین کے مجموعے کا ایک ایک لفظ مستند ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم
ایک مصنف کی حیثیت سے ڈاکٹر مسعود حسین خاں کی شخصیت کثیر جہاتی ہے۔ ماہرِ لسانیات، محقق، نقّاد، اُردو تحریک کا فعّال قلم کار، شیاع اور آپ بیتی نگار۔ تحقیق ان کی ادبی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ ڈاکٹر مسعود حسین اُردو کے ممتاز محققوں میں سے ہیں۔ تدوین کے میدان میں ان کے حریف کم ہیں۔ ان کی قدرشناسی میں مَیں کسی سے پیچھے نہیں۔
پروفیسر گیان چند جین
پروفیسر مسعود حسین خاں اُردو علم و ادب کی ایک قدآور اور سربرآوردہ شخصیت ہیں۔ گیتوں اور غزلوں سے لے کر تحقیق و تنقید، لسانیات، اسلوبیات، اقبالیات، صوتیات اور سوانح تک ان کے علمی تبحر اور فنی سلیقے نے تاریخ زبان اُردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہنے والے کارنامے انجام دیے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی