Kuliyaat e Najma Mansoor
By: Najma Mansoor
-
Rs 600.00
- Rs 800.00
- 25%
You save Rs 200.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
جب اُردو کی نثری نظم میں شاعرات کا ذکر ہوتا ہے تو کسی حتمی اور رسمی فہرست سازی کے بغیر چند نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کشور ناہید، نسرین انجم بھٹی، عذرا عباس، سارا شگفتہ۔ تاہم ایک اور نام بھی ہے جو اتنا معروف تو نہیں لیکن اُردو نثری نظم میں مذکور ناموں سے اہمیت میں کم نہیں۔ اور وہ نام ہے نجمہ منصور کا۔ سوال یہ ہے کہ عمدہ نثری نظمیں لکھنے کے باوجود نجمہ منصور شہرت کے اُس درجہ پر کیوں نہیں پہنچیں جس پر مذکورہ شاعرات فائز ہیں۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ رہی کہ نجمہ منصور سرگودھا اسکول آف تھاٹ سے وابستہ رہیں جو نثری نظم کو نثرِ لطیف کے نام سے پیش کرتا تھا اور نثری نظم کو ایک تخلیقی صنف تو مانتا تھا لیکن شعری صنف نہیں۔ یہ ٹیبو اُس وقت ٹوٹا جب خود ڈاکٹر وزیر آغا کے بیٹے سلیم آغا نے اپنا پہلا شعری مجموعہ نثرِ لطیف کی بجائے نثری نظموں کے نام سے پیش کیا۔ 2000ء میں ادارہ ’’کاغذی پیرہن‘‘ کے ایک وسیع ادبی سروے کے نتائج نے بھی چونکایا جن کے مطابق بیسویں صدی کے دس بہترین نثری نظم نگاروں میں نجمہ منصور نے حیران کن حد تک نمایاں مقام حاصل کیا۔ اگرچہ اس نوع کے سروے کسی تخلیق کار کے مقام و مرتبے اور تخلیقی معیار کا پیمانہ نہیں ہوتے لیکن ان سے کسی تخلیق کار کی ادبی وقعت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ نجمہ نے اپنے شعری سفر کا آغاز 1990ء میں کیا تھا۔ صرف ایک دہائی بعد بہترین نثری نظم نگاروں میں جگہ بنا لینا کسی تخلیقی اعجاز سے کم نہیں۔ نجمہ منصور کی نثری نظموں میں نہ تو مصنوعی رومانویت ہے اور نہ جعلی کلاسیکیت۔ ان میں نامہذب جنسیت ہے نہ غیر منہضم قسم کی لفاظی۔ دریدہ بدنی ہے نہ دریدہ دہنی۔ بلکہ ایک نفاست اور شائستگی ہے۔ زندگی کے ہمہ وقتی موضوعات کو پیچیدہ اور گنجلک بنانے کی بجائے نجمہ نے انہیں سادہ ترین شعری استدلال اور طبعی بے ساختگی سے بیان کیا ہے اور چڑیا کے پروں سے اپنی نظموں کو آراستہ کیا ہے۔ جولیا کرسٹیوا نے نسائی زبان کو معنی سے معمور قرار دیا ہے اور بام گارٹن کے نزدیک جذبے کا مکمل اظہار ہی حسن ہے۔ نجمہ کی نظموں کی زبان اور اسلوب بھی نسائی ہے جو فطری اظہار کے حسن سے لبریز ہیں۔ ان میں بنیادی شعری عناصر یعنی خیال اور جذبہ کی فراوانی ہے اور ایسی کوملتا، خوبصورتی اور شفافیت ہے جس کی مثال نثری نظم کی شاعرات میں خال خال ہی مل سکتی ہے
جب اُردو کی نثری نظم میں شاعرات کا ذکر ہوتا ہے تو کسی حتمی اور رسمی فہرست سازی کے بغیر چند نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کشور ناہید، نسرین انجم بھٹی، عذرا عباس، سارا شگفتہ۔ تاہم ایک اور نام بھی ہے جو اتنا معروف تو نہیں لیکن اُردو نثری نظم میں مذکور ناموں سے اہمیت میں کم نہیں۔ اور وہ نام ہے نجمہ منصور کا۔ سوال یہ ہے کہ عمدہ نثری نظمیں لکھنے کے باوجود نجمہ منصور شہرت کے اُس درجہ پر کیوں نہیں پہنچیں جس پر مذکورہ شاعرات فائز ہیں۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ رہی کہ نجمہ منصور سرگودھا اسکول آف تھاٹ سے وابستہ رہیں جو نثری نظم کو نثرِ لطیف کے نام سے پیش کرتا تھا اور نثری نظم کو ایک تخلیقی صنف تو مانتا تھا لیکن شعری صنف نہیں۔ یہ ٹیبو اُس وقت ٹوٹا جب خود ڈاکٹر وزیر آغا کے بیٹے سلیم آغا نے اپنا پہلا شعری مجموعہ نثرِ لطیف کی بجائے نثری نظموں کے نام سے پیش کیا۔ 2000ء میں ادارہ ’’کاغذی پیرہن‘‘ کے ایک وسیع ادبی سروے کے نتائج نے بھی چونکایا جن کے مطابق بیسویں صدی کے دس بہترین نثری نظم نگاروں میں نجمہ منصور نے حیران کن حد تک نمایاں مقام حاصل کیا۔ اگرچہ اس نوع کے سروے کسی تخلیق کار کے مقام و مرتبے اور تخلیقی معیار کا پیمانہ نہیں ہوتے لیکن ان سے کسی تخلیق کار کی ادبی وقعت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ نجمہ نے اپنے شعری سفر کا آغاز 1990ء میں کیا تھا۔ صرف ایک دہائی بعد بہترین نثری نظم نگاروں میں جگہ بنا لینا کسی تخلیقی اعجاز سے کم نہیں۔ نجمہ منصور کی نثری نظموں میں نہ تو مصنوعی رومانویت ہے اور نہ جعلی کلاسیکیت۔ ان میں نامہذب جنسیت ہے نہ غیر منہضم قسم کی لفاظی۔ دریدہ بدنی ہے نہ دریدہ دہنی۔ بلکہ ایک نفاست اور شائستگی ہے۔ زندگی کے ہمہ وقتی موضوعات کو پیچیدہ اور گنجلک بنانے کی بجائے نجمہ نے انہیں سادہ ترین شعری استدلال اور طبعی بے ساختگی سے بیان کیا ہے اور چڑیا کے پروں سے اپنی نظموں کو آراستہ کیا ہے۔ جولیا کرسٹیوا نے نسائی زبان کو معنی سے معمور قرار دیا ہے اور بام گارٹن کے نزدیک جذبے کا مکمل اظہار ہی حسن ہے۔ نجمہ کی نظموں کی زبان اور اسلوب بھی نسائی ہے جو فطری اظہار کے حسن سے لبریز ہیں۔ ان میں بنیادی شعری عناصر یعنی خیال اور جذبہ کی فراوانی ہے اور ایسی کوملتا، خوبصورتی اور شفافیت ہے جس کی مثال نثری نظم کی شاعرات میں خال خال ہی مل سکتی ہے