INSAN KI MANZIL
By: Maulana Wahiduddin Khan
-
Rs 360.00
- Rs 400.00
- 10%
You save Rs 40.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
آغازِ کلام
انسانی وجود ایک مکمل وجود ہے۔ تاہم اس کے دو حصے ہیں- مادی وجود اور روحانی وجود۔ مادی وجود سے مراد انسان کا ظاہری جسم ہے اور روحانی وجود سے مراد اس کی داخلی شخصیت؛ دونوں ہی حصے اپنی جگہ پر اہم ہیں؛ مگر دونوں کی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
موجودہ زمانے میں جو تمدنی ترقیاں ہوئی ہیں اس نے انسان کی مادی حصے کے لیے بہت زیادہ سامان فراہم کیا ہے۔ اس کے بعد انسان کی خارجی شخصیت کی ڈویلپمنٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خارجی شخصیت کی خوشنمائی، اس کی صحت مندی اور اس کی راحتوں اور آسائشوں میں اتنی زیادہ ترقی ہوئی ہے جو اس سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوئی تھی۔
مگر جہاں تک انسان کی داخلی شخصیت کی بات ہے اس میں برعکس طور پر؛ کوئی قابل لحاظ ترقی نہ ہو سکی۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ انسان کی داخلی شخصیت ایک قسم کے فاقہ (Starvation) میں مبتلا ہے۔ ظاہری طور پر خوشنما جسموں کے اندر ایک غیر صحت مند روح چھپی ہوتی ہے۔
انسانی شخصیت کے اس تضاد کو سمجھنا اور اس کا حل دریافت کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ انسان کی حیثیت جنگل کے اس جانور کی ہو جائے گی جو ہرا ہرا چارہ کھا کر جسمانی طور پر فربہ ہو گیا ہو لیکن اندر سے وہ ایک حیوانی وجود کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
انسان کو اس بحران سے بچانا فوری طور پر ضروری ہے۔ اس بحران کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ انسان کی جسمانی فیکلٹی تو خوب کام کر رہی ہے مگر اس کی دماغی فیکلٹی تقریباً معطّل پڑی ہوئی ہے۔ انسان اپنے جسم کے نظام ہضم میں خوراک ڈالتا ہے اور اس کے ہضم کا نظام سرگرم ہو کر اس کو کامیابی کے ساتھ گوشت اور خون میں کنورٹ کرتا ہے۔
اسی طرح انسان کا دماغ بھی فطرت کا ایک معجزاتی کارخانہ ہے۔ دماغ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خارجی معلومات کا تجزیہ کر کے ان سے اعلیٰ نظامِ افکار بنائے۔ وہ حکمت کے اعلیٰ مرتبے کو حاصل کرے؛ مگر انسانی دماغ کا یہ معجزاتی کارخانہ موجودہ زمانے میں اپنا کام بہت کم کر پایا ہے۔
اسی محرومی کا سبب یہ ہے کہ آج کے انسان کے پاس اپنے جسم کے تقاضے پورے کرنے کا وقت ہے مگر اس کے پاس اپنے ذہن کے تقاضے پورے کرنے کا وقت نہیں۔ آج کا انسان اعلیٰ حقائق پر سوچنے سے معذور ہے۔ آج کے انسان کے پاس کتابوں کے مطالعے کا وقت نہیں۔ حالاںکہ کتابوں کے مطالعے کا مطلب ہے تاریخ کے اعلیٰ انسانوں کی صحبت میں بیٹھنا اور ان سے تبادلۂ خیال کرنا اور اس طرح اپنے ذہنی ارتقا (Intellectual Development) کا سامان کرنا۔
زیرنظر کتاب کا مقصد اسی ضرورت کی طرف انسان کو متوجہ کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کے جسمانی حصے کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ اپنے وجود کے دوسرے حصے کے تقاضے بھی پورے کرے۔ دونوں اعتبار سے وہ اپنی شخصیت کو ترقی یافتہ شخصیت (Developed Personality) بنانے کا اہتمام کرے۔ وہ اپنی ہستی کے پوٹنشل کو پوری طرح واقعہ بنا سکے۔
وحیدالدین
۲۵ نومبر ۲۰۰۵ء
نئی دہلی
آغازِ کلام
انسانی وجود ایک مکمل وجود ہے۔ تاہم اس کے دو حصے ہیں- مادی وجود اور روحانی وجود۔ مادی وجود سے مراد انسان کا ظاہری جسم ہے اور روحانی وجود سے مراد اس کی داخلی شخصیت؛ دونوں ہی حصے اپنی جگہ پر اہم ہیں؛ مگر دونوں کی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
موجودہ زمانے میں جو تمدنی ترقیاں ہوئی ہیں اس نے انسان کی مادی حصے کے لیے بہت زیادہ سامان فراہم کیا ہے۔ اس کے بعد انسان کی خارجی شخصیت کی ڈویلپمنٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خارجی شخصیت کی خوشنمائی، اس کی صحت مندی اور اس کی راحتوں اور آسائشوں میں اتنی زیادہ ترقی ہوئی ہے جو اس سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوئی تھی۔
مگر جہاں تک انسان کی داخلی شخصیت کی بات ہے اس میں برعکس طور پر؛ کوئی قابل لحاظ ترقی نہ ہو سکی۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ انسان کی داخلی شخصیت ایک قسم کے فاقہ (Starvation) میں مبتلا ہے۔ ظاہری طور پر خوشنما جسموں کے اندر ایک غیر صحت مند روح چھپی ہوتی ہے۔
انسانی شخصیت کے اس تضاد کو سمجھنا اور اس کا حل دریافت کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ انسان کی حیثیت جنگل کے اس جانور کی ہو جائے گی جو ہرا ہرا چارہ کھا کر جسمانی طور پر فربہ ہو گیا ہو لیکن اندر سے وہ ایک حیوانی وجود کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
انسان کو اس بحران سے بچانا فوری طور پر ضروری ہے۔ اس بحران کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ انسان کی جسمانی فیکلٹی تو خوب کام کر رہی ہے مگر اس کی دماغی فیکلٹی تقریباً معطّل پڑی ہوئی ہے۔ انسان اپنے جسم کے نظام ہضم میں خوراک ڈالتا ہے اور اس کے ہضم کا نظام سرگرم ہو کر اس کو کامیابی کے ساتھ گوشت اور خون میں کنورٹ کرتا ہے۔
اسی طرح انسان کا دماغ بھی فطرت کا ایک معجزاتی کارخانہ ہے۔ دماغ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خارجی معلومات کا تجزیہ کر کے ان سے اعلیٰ نظامِ افکار بنائے۔ وہ حکمت کے اعلیٰ مرتبے کو حاصل کرے؛ مگر انسانی دماغ کا یہ معجزاتی کارخانہ موجودہ زمانے میں اپنا کام بہت کم کر پایا ہے۔
اسی محرومی کا سبب یہ ہے کہ آج کے انسان کے پاس اپنے جسم کے تقاضے پورے کرنے کا وقت ہے مگر اس کے پاس اپنے ذہن کے تقاضے پورے کرنے کا وقت نہیں۔ آج کا انسان اعلیٰ حقائق پر سوچنے سے معذور ہے۔ آج کے انسان کے پاس کتابوں کے مطالعے کا وقت نہیں۔ حالاںکہ کتابوں کے مطالعے کا مطلب ہے تاریخ کے اعلیٰ انسانوں کی صحبت میں بیٹھنا اور ان سے تبادلۂ خیال کرنا اور اس طرح اپنے ذہنی ارتقا (Intellectual Development) کا سامان کرنا۔
زیرنظر کتاب کا مقصد اسی ضرورت کی طرف انسان کو متوجہ کرنا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کے جسمانی حصے کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ اپنے وجود کے دوسرے حصے کے تقاضے بھی پورے کرے۔ دونوں اعتبار سے وہ اپنی شخصیت کو ترقی یافتہ شخصیت (Developed Personality) بنانے کا اہتمام کرے۔ وہ اپنی ہستی کے پوٹنشل کو پوری طرح واقعہ بنا سکے۔
وحیدالدین
۲۵ نومبر ۲۰۰۵ء
نئی دہلی