SHAH JAMAL KA MUJAWIR
By: Rauf Clasra
-
Rs 560.00
- Rs 700.00
- 20%
You save Rs 140.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
بچپن سے ہی ہم سب شاہ جمال دربار اور وہاں موجود ایک مجاور کو دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے۔ اس بستی کے قریب بزرگوں کے دو ہی دربار تھے۔ ایک شاہ جمال اور دوسرا مالدے شہید کا دربار۔ دونوں کی الگ الگ کہانیاں، الگ الگ کرامات کے قصے۔ ان بزرگوں کا سایہ دریائے سندھ اور تھل صحرا کے درمیان واقع اس چھوٹے سے گائوں کے مکینوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ اس گائوں کے باسیوں کی خوشی اور غم ان بزرگوں کے دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ان دونوں دربار کے ساتھ کئی کہانیاں جڑی ہوئی تھیں ۔ کئی دھاگے، کئی اُمیدیں ، منتیں ترلے، ناکام عاشقوں کی محبتوں کے سلسلے بندھے ہوئے تھے ۔ شاہ جمال دربار کے اس مجاور کی یہ کہانی سچّی ہے۔ اس کہانی کا میں خود عینی شاہد ہوں ۔ اس مجاور کے غیرمعمولی کردار پر پورا ناول لکھا جاسکتا تھا۔ یہ کہانی ہمیشہ سے میرے ذہن میں تھی ۔ اب برسوں بعد جب میں نے بزرگ شاہ جمال کے اس مجاور پر لکھنے کا فیصلہ کیا تو میرا خیال تھا وہ بہت بوڑھا یا پھر شاید وفات پا چکا ہوگا۔ لیکن پتہ چلا وہ بوڑھا مجاور ابھی بھی اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ تھا ۔ میں حیرت اور خوشی سے اُچھل پڑا ۔ میرا اس مجاور سے برسوں بعد رابطہ ہوا اور میں نے اس کی زبانی پوری کہانی سنی ۔ ایک ایسا کردار جسے بزرگ شاہ جمال نے اس کے خواب میں آ کر خود اپنا مجاور مقرر کیا تھا ۔ برسوں تک سب کچھ ٹھیک چلتا رہا لیکن پھر ایک دن نئی ٹریجڈی نے جنم لیا، جب اس گائوں میں مجاور کو ہٹا کر اس کی جگہ نیا مجاور لانے کی سازش تیار کی گئی ۔گائوں کے چند کرداروں کو لگا مجاور بہت طاقتور ہوگیا تھا۔ اس کی طاقت کو توڑنا ضروری ہوگیا تھا۔ دربار کی کمائی پر سب کی آنکھیں لگ گئی تھیں ۔ مجاور کو بھی محسوس ہوا، بزرگ شاہ جمال اور اس کے درمیان برسوں سے قائم تعلق کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ دونوں کا بہت کچھ دائو پر لگ چکا تھا۔ جہاں گائوں کی تاریک گلیوں میں اس مجاور کے اُبھرتے اثر و رُسوخ کے خلاف ایک خاموش سازش جنم لے رہی تھی وہیں شاہ جمال اور مجاور کے درمیان پیدا ہونے والی کشمکش بھی ایک نیا موڑ لے رہی تھی ۔ ایک تنہا، مایوس اور سازشوں میں گھرا مجاور اپنے بزرگ شاہ جمال سے بھی شاکی ہوچلا تھا۔ ایک دل برداشتہ مجاور کو ان سازشوں کے درمیان یوں لگا جب اسے شاہ جمال کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اسے اکیلا چھوڑ گیا تھا۔
دریائے سندھ اور تھل صحرا کے درمیان واقع ایک دُور دراز گائوں میں برسوں پہلے جنم لینے والی اس غیر معمولی کہانی کا مرکزی کردار ایک مجاور ہے جس کے بزرگ شاہ جمال کے ساتھ روحانی تعلق اور محبّت کے امتحان کی یہ غیرمعمولی داستان آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی۔
بچپن سے ہی ہم سب شاہ جمال دربار اور وہاں موجود ایک مجاور کو دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے۔ اس بستی کے قریب بزرگوں کے دو ہی دربار تھے۔ ایک شاہ جمال اور دوسرا مالدے شہید کا دربار۔ دونوں کی الگ الگ کہانیاں، الگ الگ کرامات کے قصے۔ ان بزرگوں کا سایہ دریائے سندھ اور تھل صحرا کے درمیان واقع اس چھوٹے سے گائوں کے مکینوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ اس گائوں کے باسیوں کی خوشی اور غم ان بزرگوں کے دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ ان دونوں دربار کے ساتھ کئی کہانیاں جڑی ہوئی تھیں ۔ کئی دھاگے، کئی اُمیدیں ، منتیں ترلے، ناکام عاشقوں کی محبتوں کے سلسلے بندھے ہوئے تھے ۔ شاہ جمال دربار کے اس مجاور کی یہ کہانی سچّی ہے۔ اس کہانی کا میں خود عینی شاہد ہوں ۔ اس مجاور کے غیرمعمولی کردار پر پورا ناول لکھا جاسکتا تھا۔ یہ کہانی ہمیشہ سے میرے ذہن میں تھی ۔ اب برسوں بعد جب میں نے بزرگ شاہ جمال کے اس مجاور پر لکھنے کا فیصلہ کیا تو میرا خیال تھا وہ بہت بوڑھا یا پھر شاید وفات پا چکا ہوگا۔ لیکن پتہ چلا وہ بوڑھا مجاور ابھی بھی اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ تھا ۔ میں حیرت اور خوشی سے اُچھل پڑا ۔ میرا اس مجاور سے برسوں بعد رابطہ ہوا اور میں نے اس کی زبانی پوری کہانی سنی ۔ ایک ایسا کردار جسے بزرگ شاہ جمال نے اس کے خواب میں آ کر خود اپنا مجاور مقرر کیا تھا ۔ برسوں تک سب کچھ ٹھیک چلتا رہا لیکن پھر ایک دن نئی ٹریجڈی نے جنم لیا، جب اس گائوں میں مجاور کو ہٹا کر اس کی جگہ نیا مجاور لانے کی سازش تیار کی گئی ۔گائوں کے چند کرداروں کو لگا مجاور بہت طاقتور ہوگیا تھا۔ اس کی طاقت کو توڑنا ضروری ہوگیا تھا۔ دربار کی کمائی پر سب کی آنکھیں لگ گئی تھیں ۔ مجاور کو بھی محسوس ہوا، بزرگ شاہ جمال اور اس کے درمیان برسوں سے قائم تعلق کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ دونوں کا بہت کچھ دائو پر لگ چکا تھا۔ جہاں گائوں کی تاریک گلیوں میں اس مجاور کے اُبھرتے اثر و رُسوخ کے خلاف ایک خاموش سازش جنم لے رہی تھی وہیں شاہ جمال اور مجاور کے درمیان پیدا ہونے والی کشمکش بھی ایک نیا موڑ لے رہی تھی ۔ ایک تنہا، مایوس اور سازشوں میں گھرا مجاور اپنے بزرگ شاہ جمال سے بھی شاکی ہوچلا تھا۔ ایک دل برداشتہ مجاور کو ان سازشوں کے درمیان یوں لگا جب اسے شاہ جمال کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اسے اکیلا چھوڑ گیا تھا۔
دریائے سندھ اور تھل صحرا کے درمیان واقع ایک دُور دراز گائوں میں برسوں پہلے جنم لینے والی اس غیر معمولی کہانی کا مرکزی کردار ایک مجاور ہے جس کے بزرگ شاہ جمال کے ساتھ روحانی تعلق اور محبّت کے امتحان کی یہ غیرمعمولی داستان آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی۔