ASATZA, BUREAUCRACY AUR SIASATDAN
By: JAVED AHMED MALIK
-
Rs 720.00
- Rs 900.00
- 20%
You save Rs 180.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
جاویدا حمد ملک بین الاقوامی ترقی کے ایک ماہر پالیسی ساز ہیں جو سما جی اور تعلیمی اصلاحات کی پالیسیوں کا بیس سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ صو بہ پنجاب کے تعلیمی اصلاحات کے پروگرام کا 2009ء سے 2018ء تک حصہ رہے ہیں اور وزیراعلیٰ کے پنجاب ا یجو کیشن سیکٹر ریفارم (جسے برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی (DFID) کی مد د حا صل تھی) کے مشیرِتعلیم تھے جہاں انہیں بر اہ راست صوبائی سیاسی قیا دت اور ا علیٰ افسر شاہی کے ساتھ اشتراک کار کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ما ہر ین کا قد م بقد م سا تھ ر ہا ۔ جا وید کو یہ اعزازحاصل ہے کہ انہوں نے ڈی ایف آئی ڈی کے لیے اس و قت پنجا ب کے 54000 سکولوں کے 450 ملین پا ؤنڈکے اصلاحا تی پر و گر ا م کے ڈیز این ا ور عملدرآمد کی قیا دت کا نو سا ل تک فریضہ سر ا نجا م دیا جو کہ اس و قت دُنیا میں ڈی ایف آئی ڈی کا سب سے بڑا پرو گر ا م تھا۔اس کے علاوہ جا وید دُنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک کے سما جی اور تعلیمی نظاموں سے بھی بھرپور و ا قفیت رکھتے ہیں اور ان میں سے جنوبی سوڈان، تنزانیہ،بنگلہ دیش، نیپا ل، بر طا نیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں بر اہ راست کا م کر چکے ہیں جبکہ تا جکستا ن، افغا نستا ن اور یو ر پین یو نین کے سا تھ مختلف منصوبو ں پر بالواسطہ مشا ورت اور نگر ا نی کے عمل میں شر یک ر ہے اور اقوام متحدہ سمیت پند رہ سے زائد ادا رو ں کے سا تھ بین الاقوامی معیار کی پالیسی اور پر و گر امز سے متعلقہ جا ئزہ رپو ر ٹس تصنیف کر چکے ہیں۔ رضا کا رانہ طو ر پر جاوید بصارت سے محر و م افر ا د کے لیے کام کرنے والے ادارے منو ر میمو ریل ہسپتا ل کے بو رڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور تعلیم اور ٹیکنا لو جی پر کا م کر نے والی تنظیم علم ایسوسی ایشن کے بو رڈ آف ایڈوائزرز پر خدما ت سر ا نجام دے رہے ہیں۔ جاویداحمد ملک امریکہ کی برینڈائز یونیورسٹی کے بین الاقومی شہر ت یا فتہ ادا رے ہیلر سکول فار سو شل پا لیسی اینڈ مینجمنٹ کے علا وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بھی فارغ التحصیل ہیں اور لا ہو ر یونیو رسٹی آف مینجمنٹ سا ئنسز کے سو شل اینٹرپرایز ڈیویلپمنٹ پرو گرام کے بھی فیلو رہے ہیں اور اس وقت یو نیو ر سٹی آف با تھ انگلینڈ کے انسٹی ٹیو ٹ آف پالیسی ریسرچ میں ڈاکٹریٹ فیلو ہیں اورآج کل ترقی پذیر ممالک میں جمہوی اداروں کی اصلاحات کے فروغ کے لیے کام کرنے والےایک بین الاقوامی ادارے ڈیمو کریسی رپور ٹنگ ا نٹر نیشنل پاکستان کے سر بر ا ہ ہیں جہاں ان کا کا م پا رلیمانی ا داروں کے سا تھ ملکر ملکی قو انین اور پا لیسی سازی کو بہتر بنا نا ہے۔ یہ کتا ب ان کی دوسری تصنیف ہے۔
----
اُردو میں پبلک پا لیسی اور ریفارم ایڈمنسٹریشن پر کتا بیں نہ ہو نے کے برابر ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی آپ بیتیاں موجود ہیں لیکن وہ زیادہ تر ذاتی یادداشتیں ہیں اور ٹی وی اور اخبا رات زیا دہ تر یہ بتا نے میں لگے رہتے ہیں کہ گلاس آدھا خالی ہے اور خالی ہی رہے گا۔ عوام تک ان کی اپنی زبان میں پبلک پا لیسی کا صحیح علم نہ ہو نے سے سرکار اور اعلیٰ افسران پر بے اعتباری کا کلچر عام ہے۔ دوسری طرف تعلیمی پالیسی کے بنیادی کردار اساتذہ کی آواز اور رائے تعلیمی پا لیسی میں بُری طر ح نظرانداز ہونے کی وجہ سے غیرحقیقی حکمت عملی بنانے کا چلن عام ہے۔ ا س کتاب کا مقصد پنجاب کے 54000 سکو لوں کے ایک بہت بڑے ریفا رم پروگرام کو شروع سے تقر یباً آخر تک انجا م دینے کی مقدور بھر محنت کا احوال اور اس میں شریک ساتھیو ں کے کام کو دُنیا کے سامنے لانا ہے۔اصل اور حقیقی تعلیمی انقلاب ابھی ذرا دُور ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہما رے سسٹم میں (دوسرے ہمارے ہی جیسے باقی مما لک کی نسبت) بے شمار مثبت عناصر بھی جمع ہو گئے ہیں اور تعلیم کے شعبے میں ایک بہتر اندازِ حکمرانی (یعنی گڈ گورننس) حقیقی صورت میں ہم ایک آدھ عشرے میں ہی دیکھ لیں گے۔لیکن ا س کے لیے ضروری ہے ہم یکسوئی سے ایک سمت لگ کر کا م کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی انتظامی ڈھانچے میں تیز رفتار ادارہ جاتی تبدیلیاں کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے سرکاری سکولوں کو محض دس برس سے کم عر صے میں کم از کم ایک ایسی بہتر صورتِ حال میں لا سکتے ہیں جہاں پر وہ مہنگے پر ا ئیو یٹ سکو لو ں کو ایک مشکل مقا بلے سے دوچا ر کر دیں اورہما ری قوم کے مختلف طبقا ت بشمو ل مڈل کلا س کا اعتماد سر کاری سکو لو ں پر دو با رہ بحا ل ہو جا ئے۔طو یل ا لمدت تبد یلیا ں لانے کے لیے یہ کتا ب صوبائی تعلیمی اند ا زِ حکمر ا نی میں چا ر بنیا دی شر ائط تجو یز کر تی ہے۔(اوّل) تعلیم کے ڈیڑ ھ سو سا لہ صو با ئی ا نتظامی ڈ ھا نچے کو یکسر تبد یل کرکے اس کو جدید پیشہ وا را نہ بنیا د و ں پر کھڑاکر یں۔(دوم) تعلیم کے لیے وزیر اعلیٰ ہر دس ہفتو ں کے بعد دو گھنٹوں کی ایسی میٹنگ لے جس میں ا ہد ا ف کی نگر ا نی اورجائز ے کا عمل مسلسل ہو۔ یہ روٹین ایسی ہو کہ خدا نخواستہ سیلا ب یا ا یسی کسی ہنگا می صو رتِ حال میں بھی یہ میٹنگ ملتو ی نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ کے دفتر کی نگر ا نی کےبغیرصو بے کی سطح پر تعلیم آج کے پا کستا ن میں حکو متی تر جیح بن ہی نہیں سکتی۔ (سوم)واضح قو می ہدف بنا ئیں کہ سر کا ری سکو ل اعلیٰ درجے کے مہنگے پر ائیو یٹ سکو لوں کے ہم پلہ ہو ں کیو نکہ ابھی بھی حکومت ایک عام سکو ل پر نجی شعبے سے کہیں زیا دہ وسا ئل خر چ کر تی ہے۔ اس سے کم ہد ف ہما ری عام عوام کو اشر ا فیہ کے مقا بلے میں مسلسل پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ (چہارم) ہمیں علی گڑھ کی طر ف وا پس جا نا ہوگا۔ چنا نچہ ہمیں ہر قیمت پہ اُردو کو اپنے سکولوں میں فروغ اور تر قی دینا ہے اور ہم نے ہر حال میں انگر یز ی میں اپنے سر کا ری اساتذہ اور طلبا میں تقر یباً بین الااقوا می سطح کی ا ستعد ا د پید ا کر نا ہے ۔اس کے علاوہ ہم نے ا پنے سکو لو ں کے اساتذہ اور طلبا میں عقلی اور سائنسی رویوں کوہر صو رت پید ا کر نا ہے۔ (جاوید احمد ملک)
جاویدا حمد ملک بین الاقوامی ترقی کے ایک ماہر پالیسی ساز ہیں جو سما جی اور تعلیمی اصلاحات کی پالیسیوں کا بیس سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ صو بہ پنجاب کے تعلیمی اصلاحات کے پروگرام کا 2009ء سے 2018ء تک حصہ رہے ہیں اور وزیراعلیٰ کے پنجاب ا یجو کیشن سیکٹر ریفارم (جسے برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی (DFID) کی مد د حا صل تھی) کے مشیرِتعلیم تھے جہاں انہیں بر اہ راست صوبائی سیاسی قیا دت اور ا علیٰ افسر شاہی کے ساتھ اشتراک کار کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ما ہر ین کا قد م بقد م سا تھ ر ہا ۔ جا وید کو یہ اعزازحاصل ہے کہ انہوں نے ڈی ایف آئی ڈی کے لیے اس و قت پنجا ب کے 54000 سکولوں کے 450 ملین پا ؤنڈکے اصلاحا تی پر و گر ا م کے ڈیز این ا ور عملدرآمد کی قیا دت کا نو سا ل تک فریضہ سر ا نجا م دیا جو کہ اس و قت دُنیا میں ڈی ایف آئی ڈی کا سب سے بڑا پرو گر ا م تھا۔اس کے علاوہ جا وید دُنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک کے سما جی اور تعلیمی نظاموں سے بھی بھرپور و ا قفیت رکھتے ہیں اور ان میں سے جنوبی سوڈان، تنزانیہ،بنگلہ دیش، نیپا ل، بر طا نیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں بر اہ راست کا م کر چکے ہیں جبکہ تا جکستا ن، افغا نستا ن اور یو ر پین یو نین کے سا تھ مختلف منصوبو ں پر بالواسطہ مشا ورت اور نگر ا نی کے عمل میں شر یک ر ہے اور اقوام متحدہ سمیت پند رہ سے زائد ادا رو ں کے سا تھ بین الاقوامی معیار کی پالیسی اور پر و گر امز سے متعلقہ جا ئزہ رپو ر ٹس تصنیف کر چکے ہیں۔ رضا کا رانہ طو ر پر جاوید بصارت سے محر و م افر ا د کے لیے کام کرنے والے ادارے منو ر میمو ریل ہسپتا ل کے بو رڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور تعلیم اور ٹیکنا لو جی پر کا م کر نے والی تنظیم علم ایسوسی ایشن کے بو رڈ آف ایڈوائزرز پر خدما ت سر ا نجام دے رہے ہیں۔ جاویداحمد ملک امریکہ کی برینڈائز یونیورسٹی کے بین الاقومی شہر ت یا فتہ ادا رے ہیلر سکول فار سو شل پا لیسی اینڈ مینجمنٹ کے علا وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بھی فارغ التحصیل ہیں اور لا ہو ر یونیو رسٹی آف مینجمنٹ سا ئنسز کے سو شل اینٹرپرایز ڈیویلپمنٹ پرو گرام کے بھی فیلو رہے ہیں اور اس وقت یو نیو ر سٹی آف با تھ انگلینڈ کے انسٹی ٹیو ٹ آف پالیسی ریسرچ میں ڈاکٹریٹ فیلو ہیں اورآج کل ترقی پذیر ممالک میں جمہوی اداروں کی اصلاحات کے فروغ کے لیے کام کرنے والےایک بین الاقوامی ادارے ڈیمو کریسی رپور ٹنگ ا نٹر نیشنل پاکستان کے سر بر ا ہ ہیں جہاں ان کا کا م پا رلیمانی ا داروں کے سا تھ ملکر ملکی قو انین اور پا لیسی سازی کو بہتر بنا نا ہے۔ یہ کتا ب ان کی دوسری تصنیف ہے۔
----
اُردو میں پبلک پا لیسی اور ریفارم ایڈمنسٹریشن پر کتا بیں نہ ہو نے کے برابر ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی آپ بیتیاں موجود ہیں لیکن وہ زیادہ تر ذاتی یادداشتیں ہیں اور ٹی وی اور اخبا رات زیا دہ تر یہ بتا نے میں لگے رہتے ہیں کہ گلاس آدھا خالی ہے اور خالی ہی رہے گا۔ عوام تک ان کی اپنی زبان میں پبلک پا لیسی کا صحیح علم نہ ہو نے سے سرکار اور اعلیٰ افسران پر بے اعتباری کا کلچر عام ہے۔ دوسری طرف تعلیمی پالیسی کے بنیادی کردار اساتذہ کی آواز اور رائے تعلیمی پا لیسی میں بُری طر ح نظرانداز ہونے کی وجہ سے غیرحقیقی حکمت عملی بنانے کا چلن عام ہے۔ ا س کتاب کا مقصد پنجاب کے 54000 سکو لوں کے ایک بہت بڑے ریفا رم پروگرام کو شروع سے تقر یباً آخر تک انجا م دینے کی مقدور بھر محنت کا احوال اور اس میں شریک ساتھیو ں کے کام کو دُنیا کے سامنے لانا ہے۔اصل اور حقیقی تعلیمی انقلاب ابھی ذرا دُور ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہما رے سسٹم میں (دوسرے ہمارے ہی جیسے باقی مما لک کی نسبت) بے شمار مثبت عناصر بھی جمع ہو گئے ہیں اور تعلیم کے شعبے میں ایک بہتر اندازِ حکمرانی (یعنی گڈ گورننس) حقیقی صورت میں ہم ایک آدھ عشرے میں ہی دیکھ لیں گے۔لیکن ا س کے لیے ضروری ہے ہم یکسوئی سے ایک سمت لگ کر کا م کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی انتظامی ڈھانچے میں تیز رفتار ادارہ جاتی تبدیلیاں کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے سرکاری سکولوں کو محض دس برس سے کم عر صے میں کم از کم ایک ایسی بہتر صورتِ حال میں لا سکتے ہیں جہاں پر وہ مہنگے پر ا ئیو یٹ سکو لو ں کو ایک مشکل مقا بلے سے دوچا ر کر دیں اورہما ری قوم کے مختلف طبقا ت بشمو ل مڈل کلا س کا اعتماد سر کاری سکو لو ں پر دو با رہ بحا ل ہو جا ئے۔طو یل ا لمدت تبد یلیا ں لانے کے لیے یہ کتا ب صوبائی تعلیمی اند ا زِ حکمر ا نی میں چا ر بنیا دی شر ائط تجو یز کر تی ہے۔(اوّل) تعلیم کے ڈیڑ ھ سو سا لہ صو با ئی ا نتظامی ڈ ھا نچے کو یکسر تبد یل کرکے اس کو جدید پیشہ وا را نہ بنیا د و ں پر کھڑاکر یں۔(دوم) تعلیم کے لیے وزیر اعلیٰ ہر دس ہفتو ں کے بعد دو گھنٹوں کی ایسی میٹنگ لے جس میں ا ہد ا ف کی نگر ا نی اورجائز ے کا عمل مسلسل ہو۔ یہ روٹین ایسی ہو کہ خدا نخواستہ سیلا ب یا ا یسی کسی ہنگا می صو رتِ حال میں بھی یہ میٹنگ ملتو ی نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ کے دفتر کی نگر ا نی کےبغیرصو بے کی سطح پر تعلیم آج کے پا کستا ن میں حکو متی تر جیح بن ہی نہیں سکتی۔ (سوم)واضح قو می ہدف بنا ئیں کہ سر کا ری سکو ل اعلیٰ درجے کے مہنگے پر ائیو یٹ سکو لوں کے ہم پلہ ہو ں کیو نکہ ابھی بھی حکومت ایک عام سکو ل پر نجی شعبے سے کہیں زیا دہ وسا ئل خر چ کر تی ہے۔ اس سے کم ہد ف ہما ری عام عوام کو اشر ا فیہ کے مقا بلے میں مسلسل پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ (چہارم) ہمیں علی گڑھ کی طر ف وا پس جا نا ہوگا۔ چنا نچہ ہمیں ہر قیمت پہ اُردو کو اپنے سکولوں میں فروغ اور تر قی دینا ہے اور ہم نے ہر حال میں انگر یز ی میں اپنے سر کا ری اساتذہ اور طلبا میں تقر یباً بین الااقوا می سطح کی ا ستعد ا د پید ا کر نا ہے ۔اس کے علاوہ ہم نے ا پنے سکو لو ں کے اساتذہ اور طلبا میں عقلی اور سائنسی رویوں کوہر صو رت پید ا کر نا ہے۔ (جاوید احمد ملک)