SOFI KI DUNYA
By: Jostein Gaarder
-
Rs 1,500.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
جوسٹین گارڈر (8 اگست 1952ء) ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پیدا ہوئے۔ وہ ناروے کے جانے پہچانے ادیب ہیں جن کی وجہ شہرت ان کا ناول ”سوفی کی دُنیا“ (Sophie's World) ہے۔ ان کے والدین سکول ٹیچرز تھے جبکہ والدہ بچوں کے لیے لکھا بھی کرتی تھیں۔ جوسٹین نے اوسلو یونیورسٹی میں نظریات و مذاہب کی تاریخ اور نورڈیائی ب کی تعلیم حاصل کی۔ 1976ء میں گریجوایشن کے بعد بچوں کے سکول ٹیچر کی حیثیت سے اوسلو اور برگن میں فلسفہ، مذاہب اور اَدب پڑھاتے رہے۔ 1982ء میں ان کے اَدبی کریئر کا آغاز ہوا جب ان کی پہلی کہانی اخبار میں چھپی۔ 1987ء اور 1988ء میں بچوں کے لیے دو کتابیں لکھیں۔ 1990ء میں جوسٹین کا نارویجن ناول "The Solitaire Mystery" کے نام سے ترجمہ ہوا جسے ”سوفی کی دُنیا“ لکھنے کی طرف جوسٹین کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ جوسٹین نے محسوس کیا کہ ناول کے مرکزی کردار ہانز تھامس کو فلسفے کی زیادہ شدبد ہونا چاہیے تھی۔ اس سوچ نے سوفی کے کردار کو جنم دیا جو بعد ازاں ان کے ناول ”سوفی کی دنیا“ کا مرکزی کردار بنا۔ ”سوفی کی دنیا“ 1991ء میں شائع ہوئی اور فوراً سارے یورپ میں اس کی دُھوم مچ گئی۔ 2011ء تک اس ناول کے دنیا کی انسٹھ زبانوں میں تراجم ہو چکے تھے اور اب تک اس کی چار کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ مقبولیت کے اعتبار سے اس کا شمار دُنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں ہوتا ہے۔ اس ناول پر ایک فلم، بہت سارے ٹی وی سیریلز اور کمپیوٹر گیمز بن چکے ہیں۔ جوسٹین گارڈر فلسفے کے اُستاد ہیں اور یہ ناول انہوں نے اپنے طلبا کو آسان انداز میں فلسفے کے اسباق سمجھانے کے لیے لکھا۔ اس ناول میں فلسفے کی تاریخ کو کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور فلسفے کے تمام مکاتب فکر کا تعارف بہت سادہ، آسان اور دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ نارویجن زبان اور ناروے میں لکھے جانے والے ناولوں میں جوسٹین گارڈر کا یہ ناول ناروے سے باہر سب سے زیادہ تجارتی کامیابی حاصل کرنے والا ناول ہے۔ ”سوفی کی دُنیا“ کے بعد جوسٹین نے مزید کئی ناول بھی لکھے ہیں۔ ان کا حالیہ ناول 2016ء میں سامنے آیا ہے جو "An Unreliable Man" کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
----
شاہد حمید اُردو کے مایہ ناز ادیب، ماہرِلسانیات اور مترجم ہیں۔ وہ 1928ء میں جالندھر کے ایک گائوں پَرجیاں کلاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول ننگل انبیا میں حاصل کی۔ 1947ء میں فسادات کے دوران پاکستان ہجرت کی۔ لاہور آ کر پہلے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں خواجہ منظور حُسین اور ڈاکٹر محمد صادق قابلِ ذکر ہیں۔ مشہور نقاد مظفر علی سیّد فرسٹ ایئر سے سکستھ ایئر تک شاہد حمید کے کلاس فیلو رہے۔ تعلیم کے دوران میں بطورِ صحافی ”روزنامہ آفاق“ میں کام کیا، پھر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ ایمرسن کالج ملتان، گورنمنٹ کالج ساہیوال اور گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1988ء میں ریٹائر ہوئے۔ اَدب سے دلچسپی بہت پُرانی ہے، لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ تیسرے درجے کی طبع زاد تحریروں سے عالمی کلاسک کا ترجمہ زبان و اَدب کی بدرجہا بہتر خدمت ہے۔ یہ سوچ کر زمانۂ طالب علمی میں ہی ڈیل کارنیگی کی ہر دِل عزیز کتاب ”پریشان ہونا چھوڑئیے، جینا سیکھیے“ کا اُردو ترجمہ کیا، پھر لیو طالسطائی کے عظیم ناول ”جنگ اور امن“ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد اس کام کو مکمل کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دستوئیفسکی کے ناول ”کرامازوف برادران“ کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کو دُنیا بھر میں دستوئیفسکی کی سب سے باکمال تصنیف سمجھا گیا ہے۔ اس کی اُردو میں دستیابی ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ان ضخیم ناولوں کے تراجم پر نہ صرف عمرِ عزیز کا بڑا حصہ صرف کیا، بلکہ متن سے مخلص رہنے کے لیے شب و روز محنت کی۔ انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا، ”یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیر معمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔“ ممتاز فِکشن نگار نیّر مسعود نے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط میں شاہد حمید کو حیرت خیز آدمی قرار دیا۔ ان کا انتقال 29 جنوری 2018ء کو ہوا اور ڈیفنس لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
----
ایک غیر معمولی کامیابی!
(سنڈے ٹائمز)
مغربی فلسفے کی ایک جامع تصویر... ایک چودہ سالہ لڑکی فلسفے کی تاریخ سے پردہ اُٹھاتی ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بے حد کار آمد ہو گی جو فلسفے کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں
اور ان کے لیے بھی جو بیش تر اسباق اور معلومات فراموش کر چکے ہیں۔
(نیوز وِیک)
سب سے پہلے فلسفے کی کسی ابتدائی کتاب کے متعلق سوچیں جو سکول کے کسی استاد نے لکھی ہو... پھر ایک تصوراتی ناول کا سوچیں؛ جامِ جمشید کی طرز پر کوئی جدید شکل۔ اب ان دو بے جوڑ چیزوں
کو آپس میں ملائیں۔ آپ کو کیا ملے گا؟ ایک غیر متوقع بین الاقوامی بیسٹ سیلر... ایک قابو میں نہ آنے والی ہِٹ چیز... ایک ٹُوور ڈِی فورس!
(ٹائم)
اس ناول کی علمی گہرائی، اس کی معلومات اور اس کے بالکل اُچھوتے خیال نے اسے بے پناہ مقناطیسی قوت دے دی ہے... مکمل انسان بننے کے لیے اور خود کو 3000 سال کی فلسفیانہ کاوشوں سے جوڑے رکھنے کے لیے، ہمیں اپنے آپ کو سَوفی کی دُنیا میں لے کر جانا پڑے گا۔
(بوسٹن سنڈے گلوب)
اس ناول کی سب سے قابلِ تعریف بات اس کا سیدھا سادہ اندازِ بیان ہے۔ فلسفے جیسے خشک موضوع کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر بات آسانی سے دل میں اتر جاتی ہے۔ فلسفے کی تاریخ کے بارے میں یہ ناول فرانس میں پاگل پن کی حد تک مقبول ہوا ہے اور آج پورے یورپ کا پسندیدہ ناول ہے۔
(دی واشنگٹن پوسٹ بُک ورلڈ)
یہ ایک انوکھی اور نادر کتاب ہے۔ سقراط سے سارتر تک کے نظریات کا نچوڑ، ایک ایسی گولی جو شہد اور دودھ کے مرکب سے بنائی گئی ہے۔ ایک بار پڑھنا شروع کرنے کے بعد اسے آسانی سے ایک طرف ڈال دینا آپ کے بس کی بات نہیں۔
(نیویارک نیوز ڈے)
ایک بھرپور کتاب!
اس کتاب کی کامیابی کی وجہ ایک سادہ سا نکتہ ہے: گارڈر کی قاری تک خیالات پہنچانے کی قدرتی صلاحیت۔
(گارڈییَن)
نوے کی دہائی کا ’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘... سَوفی کی دُنیا کو پہلے ہی سٹیفن ہاکنگ کی کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ“ کا فلسفیانہ جواب کہا جا چکا ہے... آسان لفظوں میں، یہ ایک حیرت انگیز، اپنے اندر کھینچ لینے والی کتاب ہے۔
(روزنامہ ٹیلی گراف)
شاندار... جوسٹین گارڈر نے 3000 سالوں کے خیالات کو 700 صفحات میں سمو دیا ہے۔ نہایت پیچیدہ مسائل کو، غیر اہم کیے بغیر، آسان کر دینا، سَوفی کی دُنیا کی شاندار کامیابی ہے!
(سنڈے ٹائمز)
پُر فریب اور اچھوتا... سوفی کی دُنیا عجیب اور حیرت انگیز کتاب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، یہ واقعتاً ہے۔
(ٹی ایل ایس)
شدید پُرلطف اور تصوراتی کہانی جو کتاب کے سخت، خیال انگیز فلسفیانہ قلب کے گرد لپیٹی گئی ہے۔
(ڈیلی مَیل)
خیال افزا، معلوماتی اور مشکل خیالات کو سوچنے کے آسان اور قابلِ تقلید طریقوں سے بھرا ہوا۔
(انڈیپنڈنٹ)
سوفی کی دنیا ایک منفرد مشہور کلاسیک بننے کو ہے: خوب صورتی سے اپنے آپ میں مگن کرلینے والی ایک کہانی، جو فلسفے اور فلسفیوں کا ایک آسان فہم تعارف بھی ہے۔
(دا ٹائمز)
جوسٹین کے زیرک ہاتھوں میں، پورے تین ہزار سال کا مغربی فلسفہ ایک گپی کالم کی طرح
چونچال ہو گیا ہے... درجہ اوّل کی ادبی جادوگری!
(فورٹ وَرتھ سٹار — ٹیلی گرام)
جوسٹین گارڈر (8 اگست 1952ء) ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پیدا ہوئے۔ وہ ناروے کے جانے پہچانے ادیب ہیں جن کی وجہ شہرت ان کا ناول ”سوفی کی دُنیا“ (Sophie's World) ہے۔ ان کے والدین سکول ٹیچرز تھے جبکہ والدہ بچوں کے لیے لکھا بھی کرتی تھیں۔ جوسٹین نے اوسلو یونیورسٹی میں نظریات و مذاہب کی تاریخ اور نورڈیائی ب کی تعلیم حاصل کی۔ 1976ء میں گریجوایشن کے بعد بچوں کے سکول ٹیچر کی حیثیت سے اوسلو اور برگن میں فلسفہ، مذاہب اور اَدب پڑھاتے رہے۔ 1982ء میں ان کے اَدبی کریئر کا آغاز ہوا جب ان کی پہلی کہانی اخبار میں چھپی۔ 1987ء اور 1988ء میں بچوں کے لیے دو کتابیں لکھیں۔ 1990ء میں جوسٹین کا نارویجن ناول "The Solitaire Mystery" کے نام سے ترجمہ ہوا جسے ”سوفی کی دُنیا“ لکھنے کی طرف جوسٹین کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ جوسٹین نے محسوس کیا کہ ناول کے مرکزی کردار ہانز تھامس کو فلسفے کی زیادہ شدبد ہونا چاہیے تھی۔ اس سوچ نے سوفی کے کردار کو جنم دیا جو بعد ازاں ان کے ناول ”سوفی کی دنیا“ کا مرکزی کردار بنا۔ ”سوفی کی دنیا“ 1991ء میں شائع ہوئی اور فوراً سارے یورپ میں اس کی دُھوم مچ گئی۔ 2011ء تک اس ناول کے دنیا کی انسٹھ زبانوں میں تراجم ہو چکے تھے اور اب تک اس کی چار کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ مقبولیت کے اعتبار سے اس کا شمار دُنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں ہوتا ہے۔ اس ناول پر ایک فلم، بہت سارے ٹی وی سیریلز اور کمپیوٹر گیمز بن چکے ہیں۔ جوسٹین گارڈر فلسفے کے اُستاد ہیں اور یہ ناول انہوں نے اپنے طلبا کو آسان انداز میں فلسفے کے اسباق سمجھانے کے لیے لکھا۔ اس ناول میں فلسفے کی تاریخ کو کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور فلسفے کے تمام مکاتب فکر کا تعارف بہت سادہ، آسان اور دلنشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ نارویجن زبان اور ناروے میں لکھے جانے والے ناولوں میں جوسٹین گارڈر کا یہ ناول ناروے سے باہر سب سے زیادہ تجارتی کامیابی حاصل کرنے والا ناول ہے۔ ”سوفی کی دُنیا“ کے بعد جوسٹین نے مزید کئی ناول بھی لکھے ہیں۔ ان کا حالیہ ناول 2016ء میں سامنے آیا ہے جو "An Unreliable Man" کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
----
شاہد حمید اُردو کے مایہ ناز ادیب، ماہرِلسانیات اور مترجم ہیں۔ وہ 1928ء میں جالندھر کے ایک گائوں پَرجیاں کلاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول ننگل انبیا میں حاصل کی۔ 1947ء میں فسادات کے دوران پاکستان ہجرت کی۔ لاہور آ کر پہلے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں خواجہ منظور حُسین اور ڈاکٹر محمد صادق قابلِ ذکر ہیں۔ مشہور نقاد مظفر علی سیّد فرسٹ ایئر سے سکستھ ایئر تک شاہد حمید کے کلاس فیلو رہے۔ تعلیم کے دوران میں بطورِ صحافی ”روزنامہ آفاق“ میں کام کیا، پھر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ ایمرسن کالج ملتان، گورنمنٹ کالج ساہیوال اور گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1988ء میں ریٹائر ہوئے۔ اَدب سے دلچسپی بہت پُرانی ہے، لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ تیسرے درجے کی طبع زاد تحریروں سے عالمی کلاسک کا ترجمہ زبان و اَدب کی بدرجہا بہتر خدمت ہے۔ یہ سوچ کر زمانۂ طالب علمی میں ہی ڈیل کارنیگی کی ہر دِل عزیز کتاب ”پریشان ہونا چھوڑئیے، جینا سیکھیے“ کا اُردو ترجمہ کیا، پھر لیو طالسطائی کے عظیم ناول ”جنگ اور امن“ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد اس کام کو مکمل کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دستوئیفسکی کے ناول ”کرامازوف برادران“ کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کو دُنیا بھر میں دستوئیفسکی کی سب سے باکمال تصنیف سمجھا گیا ہے۔ اس کی اُردو میں دستیابی ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ان ضخیم ناولوں کے تراجم پر نہ صرف عمرِ عزیز کا بڑا حصہ صرف کیا، بلکہ متن سے مخلص رہنے کے لیے شب و روز محنت کی۔ انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا، ”یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیر معمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔“ ممتاز فِکشن نگار نیّر مسعود نے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط میں شاہد حمید کو حیرت خیز آدمی قرار دیا۔ ان کا انتقال 29 جنوری 2018ء کو ہوا اور ڈیفنس لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
----
ایک غیر معمولی کامیابی!
(سنڈے ٹائمز)
مغربی فلسفے کی ایک جامع تصویر... ایک چودہ سالہ لڑکی فلسفے کی تاریخ سے پردہ اُٹھاتی ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بے حد کار آمد ہو گی جو فلسفے کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں
اور ان کے لیے بھی جو بیش تر اسباق اور معلومات فراموش کر چکے ہیں۔
(نیوز وِیک)
سب سے پہلے فلسفے کی کسی ابتدائی کتاب کے متعلق سوچیں جو سکول کے کسی استاد نے لکھی ہو... پھر ایک تصوراتی ناول کا سوچیں؛ جامِ جمشید کی طرز پر کوئی جدید شکل۔ اب ان دو بے جوڑ چیزوں
کو آپس میں ملائیں۔ آپ کو کیا ملے گا؟ ایک غیر متوقع بین الاقوامی بیسٹ سیلر... ایک قابو میں نہ آنے والی ہِٹ چیز... ایک ٹُوور ڈِی فورس!
(ٹائم)
اس ناول کی علمی گہرائی، اس کی معلومات اور اس کے بالکل اُچھوتے خیال نے اسے بے پناہ مقناطیسی قوت دے دی ہے... مکمل انسان بننے کے لیے اور خود کو 3000 سال کی فلسفیانہ کاوشوں سے جوڑے رکھنے کے لیے، ہمیں اپنے آپ کو سَوفی کی دُنیا میں لے کر جانا پڑے گا۔
(بوسٹن سنڈے گلوب)
اس ناول کی سب سے قابلِ تعریف بات اس کا سیدھا سادہ اندازِ بیان ہے۔ فلسفے جیسے خشک موضوع کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر بات آسانی سے دل میں اتر جاتی ہے۔ فلسفے کی تاریخ کے بارے میں یہ ناول فرانس میں پاگل پن کی حد تک مقبول ہوا ہے اور آج پورے یورپ کا پسندیدہ ناول ہے۔
(دی واشنگٹن پوسٹ بُک ورلڈ)
یہ ایک انوکھی اور نادر کتاب ہے۔ سقراط سے سارتر تک کے نظریات کا نچوڑ، ایک ایسی گولی جو شہد اور دودھ کے مرکب سے بنائی گئی ہے۔ ایک بار پڑھنا شروع کرنے کے بعد اسے آسانی سے ایک طرف ڈال دینا آپ کے بس کی بات نہیں۔
(نیویارک نیوز ڈے)
ایک بھرپور کتاب!
اس کتاب کی کامیابی کی وجہ ایک سادہ سا نکتہ ہے: گارڈر کی قاری تک خیالات پہنچانے کی قدرتی صلاحیت۔
(گارڈییَن)
نوے کی دہائی کا ’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘... سَوفی کی دُنیا کو پہلے ہی سٹیفن ہاکنگ کی کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ“ کا فلسفیانہ جواب کہا جا چکا ہے... آسان لفظوں میں، یہ ایک حیرت انگیز، اپنے اندر کھینچ لینے والی کتاب ہے۔
(روزنامہ ٹیلی گراف)
شاندار... جوسٹین گارڈر نے 3000 سالوں کے خیالات کو 700 صفحات میں سمو دیا ہے۔ نہایت پیچیدہ مسائل کو، غیر اہم کیے بغیر، آسان کر دینا، سَوفی کی دُنیا کی شاندار کامیابی ہے!
(سنڈے ٹائمز)
پُر فریب اور اچھوتا... سوفی کی دُنیا عجیب اور حیرت انگیز کتاب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، یہ واقعتاً ہے۔
(ٹی ایل ایس)
شدید پُرلطف اور تصوراتی کہانی جو کتاب کے سخت، خیال انگیز فلسفیانہ قلب کے گرد لپیٹی گئی ہے۔
(ڈیلی مَیل)
خیال افزا، معلوماتی اور مشکل خیالات کو سوچنے کے آسان اور قابلِ تقلید طریقوں سے بھرا ہوا۔
(انڈیپنڈنٹ)
سوفی کی دنیا ایک منفرد مشہور کلاسیک بننے کو ہے: خوب صورتی سے اپنے آپ میں مگن کرلینے والی ایک کہانی، جو فلسفے اور فلسفیوں کا ایک آسان فہم تعارف بھی ہے۔
(دا ٹائمز)
جوسٹین کے زیرک ہاتھوں میں، پورے تین ہزار سال کا مغربی فلسفہ ایک گپی کالم کی طرح
چونچال ہو گیا ہے... درجہ اوّل کی ادبی جادوگری!
(فورٹ وَرتھ سٹار — ٹیلی گرام)