KHUSHBU KI DIVAAR KE PEECHE
By: Muhammad Hameed Shahid
-
Rs 1,800.00
- Rs 2,000.00
- 10%
You save Rs 200.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
میری زندگی پہاڑی ندی کے سفرزاد پانی جیسی رہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس پانی کی منزل فنا کا کڑوا سمندر ہے مگراس کی موج موج سے جو مدھر اور حیات افزا گیت پھوٹتا ہے اُس نے مجھے گرفتار رکھا ہے۔ ہر اوبڑ کھابڑ، ہر روڑا پتّھر اور ہر رکاوٹ میرے لیے کسی ستار کے تنبے کی جواریوں پر سے گزرتی تنی ہوئی تاریں ہیں جو چوٹ پڑنے پر گنگنانے لگتی ہیں۔ ہر بار پانی کا دھارا رکاوٹوں سے ٹکراتا ہے اور فضا میں گیت اچھال دیتا ہے۔ یہی میری ہست ندی کا گیت ہے۔ یہ محض میری ہڈ بیتی یا دُکھ سکھ کا روایتی قصہ نہیں ہے۔ میں جیسا ہوں مجھے ایسا بنانے اوراس وجود کی عمارت کی تعمیر میں اینٹ گارے کا کام دینے کے لیے میری محبتیں، میری الجھنیں، میری نجی، پیشہ ورانہ اور ادبی زندگی کے علاوہ، سماجی، سیاسی اور تہذیبی واقعات اور سانحات بھی بہم ہوتے رہے ہیں۔ یوں یہ کہانی ایسا آئینہ ہو گئی ہے، جس میں آپ چاہیں تو اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے اغل بغل کی چہل پہل اور اکھاڑ پچھاڑ بھی۔ اس نہج سے دیکھیں تو میری زندگی میری کہاں رہی ہے؟ کہ اس میں انہدام کی زد پر آئی ہوئی تہذیب، تیزی سے پچھڑتی ہوئی محبوب روایات، ٹوٹتے بنتے سماجی رشتے، سیاست دانوں کی لوٹ مار، قومی اداروں کی توڑ پھوڑ، مقتدر قوتوں کی من مانیاں، ٹکڑوں میں بٹتی ریاست، دہشت کے لہو میں غرق ہوتا قومی وجود، وباکا لقمہ بنتے پیارے لوگ اور ادبی گہما گہمی سمیت زندگی کا ہر پہلو متن ہو گیا ہے۔ اس ہنگامے کے اندر سے مجھے زندگی کی معنویت کا ایک گیت سنائی دیتا رہا ہے۔ وہی گیت میں آپ کی محفل میں سنانے آ گیا ہوں۔
میری زندگی پہاڑی ندی کے سفرزاد پانی جیسی رہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس پانی کی منزل فنا کا کڑوا سمندر ہے مگراس کی موج موج سے جو مدھر اور حیات افزا گیت پھوٹتا ہے اُس نے مجھے گرفتار رکھا ہے۔ ہر اوبڑ کھابڑ، ہر روڑا پتّھر اور ہر رکاوٹ میرے لیے کسی ستار کے تنبے کی جواریوں پر سے گزرتی تنی ہوئی تاریں ہیں جو چوٹ پڑنے پر گنگنانے لگتی ہیں۔ ہر بار پانی کا دھارا رکاوٹوں سے ٹکراتا ہے اور فضا میں گیت اچھال دیتا ہے۔ یہی میری ہست ندی کا گیت ہے۔ یہ محض میری ہڈ بیتی یا دُکھ سکھ کا روایتی قصہ نہیں ہے۔ میں جیسا ہوں مجھے ایسا بنانے اوراس وجود کی عمارت کی تعمیر میں اینٹ گارے کا کام دینے کے لیے میری محبتیں، میری الجھنیں، میری نجی، پیشہ ورانہ اور ادبی زندگی کے علاوہ، سماجی، سیاسی اور تہذیبی واقعات اور سانحات بھی بہم ہوتے رہے ہیں۔ یوں یہ کہانی ایسا آئینہ ہو گئی ہے، جس میں آپ چاہیں تو اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے اغل بغل کی چہل پہل اور اکھاڑ پچھاڑ بھی۔ اس نہج سے دیکھیں تو میری زندگی میری کہاں رہی ہے؟ کہ اس میں انہدام کی زد پر آئی ہوئی تہذیب، تیزی سے پچھڑتی ہوئی محبوب روایات، ٹوٹتے بنتے سماجی رشتے، سیاست دانوں کی لوٹ مار، قومی اداروں کی توڑ پھوڑ، مقتدر قوتوں کی من مانیاں، ٹکڑوں میں بٹتی ریاست، دہشت کے لہو میں غرق ہوتا قومی وجود، وباکا لقمہ بنتے پیارے لوگ اور ادبی گہما گہمی سمیت زندگی کا ہر پہلو متن ہو گیا ہے۔ اس ہنگامے کے اندر سے مجھے زندگی کی معنویت کا ایک گیت سنائی دیتا رہا ہے۔ وہی گیت میں آپ کی محفل میں سنانے آ گیا ہوں۔