DARA SHIKOH
By: QAZI ABDUL SATTAR
-
Rs 360.00
- Rs 400.00
- 10%
You save Rs 40.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
شہنشاہوں کی تاریخ، فوج، کنیزیں، اصیلیں، مغلانیاں، قلمقانیاں، باندیاں، لونڈیاں، نوکر چاکر، مصاحب .... ان کی داستاں کوئی لکھ سکتا تھا تو وہ قاضی صاحب تھے۔ بادشاۂ وقت، تیور بھی شاہانہ رکھتے تھے۔ محاورہ ہے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا۔ نواب سے ملنے والا آیا تو وقت رُخصتی خالی ہاتھ کیسے جانے دیں۔ پیتل کا گھنٹہ دے دیا۔ ان پر لکھنے کو دُنیا بھر کی کتابیں اور کہانیاں ہیں۔ مگر آج قاضی صاحب کے صرف ایک ناول ’’دارا شکوہ‘‘ پر اکتفا کروں گا۔ ’’دارا شکوہ‘‘ پڑھتے ہوئے لگتا ہے، شاہجہاں کا پانچواں بیٹا، جس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہی یہ رُوداد رقم کر رہا ہے۔ یہ ماضی کا قصّہ نہیں، یہ آج کا قصّہ ہے۔ لکھنے والے قاضی صاحب.... تاریخ کے محافظ قاضی صاحب.... اور اس دَور کے عینی شاہد قاضی صاحب.... وہ حقیقت میں بادشاہ تھے.... جلال و جمال کی شاہانہ مثال.... ’’دارا شکوہ‘‘ کسی جادو سے کم نہیں۔ جی چاہتا ہے، شاہجہاں کے کردار میں قاضی صاحب کو دیکھوں.... قاضی صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں، ہر ملاقات یادگار۔ کافی پہلے انھوں نے کہا تھا، افسانہ چاول پر قُلْ هُوَ اللّٰہ لکھنے کا نام ہے۔ ان کے ناول اور افسانے پڑھنے کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کہا؟ وہ کہانیوں کے بادشاہ تھے۔ جب تک جیے شان سے جیے۔ وہ نمائش کے لیے افسانہ نہیں لکھتے تھے۔ وہ غیب کی صداؤں کو زنبیل سے نکالتے اور لفظوں کا انتخاب کرتے۔ انھوں نے جو بھی لکھا، کسی شاہکار سے کم نہیں!
شہنشاہوں کی تاریخ، فوج، کنیزیں، اصیلیں، مغلانیاں، قلمقانیاں، باندیاں، لونڈیاں، نوکر چاکر، مصاحب .... ان کی داستاں کوئی لکھ سکتا تھا تو وہ قاضی صاحب تھے۔ بادشاۂ وقت، تیور بھی شاہانہ رکھتے تھے۔ محاورہ ہے کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا۔ نواب سے ملنے والا آیا تو وقت رُخصتی خالی ہاتھ کیسے جانے دیں۔ پیتل کا گھنٹہ دے دیا۔ ان پر لکھنے کو دُنیا بھر کی کتابیں اور کہانیاں ہیں۔ مگر آج قاضی صاحب کے صرف ایک ناول ’’دارا شکوہ‘‘ پر اکتفا کروں گا۔ ’’دارا شکوہ‘‘ پڑھتے ہوئے لگتا ہے، شاہجہاں کا پانچواں بیٹا، جس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہی یہ رُوداد رقم کر رہا ہے۔ یہ ماضی کا قصّہ نہیں، یہ آج کا قصّہ ہے۔ لکھنے والے قاضی صاحب.... تاریخ کے محافظ قاضی صاحب.... اور اس دَور کے عینی شاہد قاضی صاحب.... وہ حقیقت میں بادشاہ تھے.... جلال و جمال کی شاہانہ مثال.... ’’دارا شکوہ‘‘ کسی جادو سے کم نہیں۔ جی چاہتا ہے، شاہجہاں کے کردار میں قاضی صاحب کو دیکھوں.... قاضی صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں، ہر ملاقات یادگار۔ کافی پہلے انھوں نے کہا تھا، افسانہ چاول پر قُلْ هُوَ اللّٰہ لکھنے کا نام ہے۔ ان کے ناول اور افسانے پڑھنے کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کہا؟ وہ کہانیوں کے بادشاہ تھے۔ جب تک جیے شان سے جیے۔ وہ نمائش کے لیے افسانہ نہیں لکھتے تھے۔ وہ غیب کی صداؤں کو زنبیل سے نکالتے اور لفظوں کا انتخاب کرتے۔ انھوں نے جو بھی لکھا، کسی شاہکار سے کم نہیں!