Qabz E Zaman
By: Shamsur Rahman Faruqi
-
Rs 400.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی اُردو دنیا کی ایسی عہدساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پراعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انھیں ’’پدم شری ‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ خلاق شاعر، مجتہد نقاد، دانشور اور شب خون جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر اور سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار جنہوں نے اپنے فن پاروں کو تہذیبی مرقع بنا کر اس صنف پر امکانات کے نئے آفاق کھول دیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی 15 جنوری 1936ء کو پرتاب گڑھ، یوپی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم وفضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی۔ دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے اور فراق گورکھپوری کے استاد تھے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے 1953ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ اسی دوران ان کے تنقیدی مضامین اور تراجم شائع ہونا شروع ہوئے جنھوں نے ادبی دُنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ جون 1966ء میں ادبی رسالہ ’’شب خون‘‘ نکالا اور کئی نسلوں کے ادیبوں کی تربیت کی۔ انھوں نے نقد ، شاعری، فکشن، لغت نویسی، داستان، عروض، ترجمہ جیسے کئی فنون پر کتابیں لکھیں۔ تنقید کے میدان میں ان کا سب سے معرکہ آرا کام ’’شعر شور انگیز‘‘ کو سمجھا جاتا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں میر تقی میرؔ کی تفہیم جس انداز سے کی گئی ہے اس کی کوئی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب پر انھیں 1996ء میں سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ انھوں نے ارسطو کی ’’بوطیقا‘‘ کا بھی ازسرنو ترجمہ کیا اور اس کا بہت شاندار مقدمہ تحریر کیا۔ ان کا شعری کلیات ’’مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔2001ء میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان افسانوں نے انھیں مائل کیا کہ وہ برصغیر کی مغلیہ تاریخ کے پس منظر میں کوئی ناول تحریر کریں۔ یہ ناول ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول نے شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ حاصل کیا۔ اُردو کے تمام بڑے فکشن نگاروں، نقادوں اور قارئین نے اس کا والہانہ استقبال کیا جس کا اندازہ اس ناول کے متعدد ایڈیشنز اور تراجم کی اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اس ناول کا کلاسک ایڈیشن شائع کرنے کا اعزاز ’’بک کارنر‘‘ جہلم کو حاصل ہوا، اس جدید اشاعت کو شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے بے حد سراہا۔ ان کا داد بھرا پیغام موصول ہونا ... (بنام امر شاہد) ’’ماشاءاللہ، تمکتاب کو دُور تک پھیلا رہے ہو۔ امید ہے کتاب جلد پوری فروخت ہو جائے گی -تمھارا شمس الرحمٰن فاروقی۔‘‘ ... ادارے کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
اکتوبر 2020ء دُنیائے اُردو اس خبر سے بہت مضطرب ہوئی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کووڈ 19 کے وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔ انھیں علاج کے لیے دہلی منتقل کیا گیا جہاں وہ اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ بعدازاں ان کے بےحد اصرار پر 25 دسمبر 2020ء کی صبح انھیں واپس الٰہ آباد منتقل کیا گیا مگر وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر سماجی رابطوں کے ذرائع سے فوراً پوری ادبی دنیا میں پھیل گئی۔ انڈیا، پاکستان اور جہاں جہاں اُردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں اسے خاندان کے کسی بزرگ کی موت کی خبر کی طرح سمجھا گیا۔ ان کی وفات سے اُردو ادب ایک بلند قامت ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ انھیں ان کی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت اور پذیرائی ملی وہ بہت کم افراد کو ملتی ہے مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔ (ناشر)
تنقید اور اس کے بعد ناول اور افسانے کے میدان میں شمس الرحمٰن فاروقی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ لیکن وہ اپنے پچھلے کارناموں پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانے والے آدمی نہیں۔ ان کی مہم جُو طبیعت نئے راستوں کی طرف رواں ہو جاتی ہے۔ ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ میں اُنھوں نے مغلیہ دَور کی شان و شوکت کو اس طرح محفوظ کر دیا جو اس کے شایانِ شان تھی۔ مختصر ناول ’’قبضِ زماں‘‘ میں اُنھوں نے ہند اسلامی تاریخ کے ماضی میں سے ایسا کردار ڈھونڈ کر نکالا ہے جو کہنے کو عام آدمی ہے لیکن وقت کا سفر کرتے ہوئے ایک اور عہد میں جا پہنچتا ہے۔ وہ اپنے وقت کو گُم کر بیٹھتا ہے اور پُراسرار حالات کے تحت اپنے زمانے سے آگے جا پہنچتا ہے۔ کیسا عجیب تجربہ ہے اور اس کو الفاظ کی گرفت میں لانا کس قدر مشکل۔ لیکن فاروقی صاحب اس تجربے کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنی گرفت میں لے آتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا بیان بھی حیرت ناک ہے اور اس کو پڑھنے کا تجربہ بھی بہت انوکھا ہے۔
انتظار حسین
ہماری تہذیبی تاریخ کا وہ لمحہ یادگار تھا جب محمد حسین آزاد ادبی تاریخ لکھنے بیٹھے اور ان کے جادونگار قلم سے ایسے مرقعے سامنے آئے جو افسانوں کی سی دل چسپی کے ساتھ پڑھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں یہ کارنامہ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا ہے کہ تنقید لکھتے لکھتے ناول اور افسانے کی طرف آ گئے۔ ان کا یہ مختصر ناول ایسا ہے کہ پڑھنے والا دانتوں میں اُنگلی دبا لیتا ہے۔ ’’قبضِ زماں‘‘ کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے بھی وقت کے اس سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں...
ڈاکٹر اسلم فرخی
یوں تو شمس الرحمٰن فاروقی کے فکشن کو پڑھنا علمی، ادبی اور تہذیبی زندگی سے چھلکتے ہوئے ایک عہد میں جاکر بس جانے کا نام ہے مگر ان کے مختصر ناول ’’قبض زماں‘‘ کا مطالعہ یوں مختلف ہو جاتا ہے کہ یہ کسی ایک عہد کی تہذیبی زندگی پر محیط نہیں، اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس ناول میں ایک ایسا شخص ہے جس سے اس کا اپنا زمانہ اور وہ اپنے زمانے سے پچھڑ گیا ہے۔ وہ عجیب اور ناقابلِ یقین حالات سے گزرتے ہوئے ایک اور زمانے میں جا پڑتا ہے۔ یوں یہ ناول ہمیں ایک سے زیادہ زمانوں اور زمینوں کی سیر کراتا اور زندگی کے ان بھیدوں کے مقابل کرتا ہے جو سمے کی سمٹن سے نکلتے اور حیرت کی پھیلی آنکھ پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔
محمد حمید شاہد
’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی اُردو دنیا کی ایسی عہدساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پراعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انھیں ’’پدم شری ‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ خلاق شاعر، مجتہد نقاد، دانشور اور شب خون جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر اور سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار جنہوں نے اپنے فن پاروں کو تہذیبی مرقع بنا کر اس صنف پر امکانات کے نئے آفاق کھول دیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی 15 جنوری 1936ء کو پرتاب گڑھ، یوپی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم وفضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی۔ دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے اور فراق گورکھپوری کے استاد تھے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے 1953ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ اسی دوران ان کے تنقیدی مضامین اور تراجم شائع ہونا شروع ہوئے جنھوں نے ادبی دُنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ جون 1966ء میں ادبی رسالہ ’’شب خون‘‘ نکالا اور کئی نسلوں کے ادیبوں کی تربیت کی۔ انھوں نے نقد ، شاعری، فکشن، لغت نویسی، داستان، عروض، ترجمہ جیسے کئی فنون پر کتابیں لکھیں۔ تنقید کے میدان میں ان کا سب سے معرکہ آرا کام ’’شعر شور انگیز‘‘ کو سمجھا جاتا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں میر تقی میرؔ کی تفہیم جس انداز سے کی گئی ہے اس کی کوئی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب پر انھیں 1996ء میں سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ انھوں نے ارسطو کی ’’بوطیقا‘‘ کا بھی ازسرنو ترجمہ کیا اور اس کا بہت شاندار مقدمہ تحریر کیا۔ ان کا شعری کلیات ’’مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔2001ء میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان افسانوں نے انھیں مائل کیا کہ وہ برصغیر کی مغلیہ تاریخ کے پس منظر میں کوئی ناول تحریر کریں۔ یہ ناول ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول نے شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ حاصل کیا۔ اُردو کے تمام بڑے فکشن نگاروں، نقادوں اور قارئین نے اس کا والہانہ استقبال کیا جس کا اندازہ اس ناول کے متعدد ایڈیشنز اور تراجم کی اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اس ناول کا کلاسک ایڈیشن شائع کرنے کا اعزاز ’’بک کارنر‘‘ جہلم کو حاصل ہوا، اس جدید اشاعت کو شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے بے حد سراہا۔ ان کا داد بھرا پیغام موصول ہونا ... (بنام امر شاہد) ’’ماشاءاللہ، تمکتاب کو دُور تک پھیلا رہے ہو۔ امید ہے کتاب جلد پوری فروخت ہو جائے گی -تمھارا شمس الرحمٰن فاروقی۔‘‘ ... ادارے کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
اکتوبر 2020ء دُنیائے اُردو اس خبر سے بہت مضطرب ہوئی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کووڈ 19 کے وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔ انھیں علاج کے لیے دہلی منتقل کیا گیا جہاں وہ اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ بعدازاں ان کے بےحد اصرار پر 25 دسمبر 2020ء کی صبح انھیں واپس الٰہ آباد منتقل کیا گیا مگر وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر سماجی رابطوں کے ذرائع سے فوراً پوری ادبی دنیا میں پھیل گئی۔ انڈیا، پاکستان اور جہاں جہاں اُردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں اسے خاندان کے کسی بزرگ کی موت کی خبر کی طرح سمجھا گیا۔ ان کی وفات سے اُردو ادب ایک بلند قامت ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ انھیں ان کی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت اور پذیرائی ملی وہ بہت کم افراد کو ملتی ہے مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔ (ناشر)
تنقید اور اس کے بعد ناول اور افسانے کے میدان میں شمس الرحمٰن فاروقی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ لیکن وہ اپنے پچھلے کارناموں پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانے والے آدمی نہیں۔ ان کی مہم جُو طبیعت نئے راستوں کی طرف رواں ہو جاتی ہے۔ ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ میں اُنھوں نے مغلیہ دَور کی شان و شوکت کو اس طرح محفوظ کر دیا جو اس کے شایانِ شان تھی۔ مختصر ناول ’’قبضِ زماں‘‘ میں اُنھوں نے ہند اسلامی تاریخ کے ماضی میں سے ایسا کردار ڈھونڈ کر نکالا ہے جو کہنے کو عام آدمی ہے لیکن وقت کا سفر کرتے ہوئے ایک اور عہد میں جا پہنچتا ہے۔ وہ اپنے وقت کو گُم کر بیٹھتا ہے اور پُراسرار حالات کے تحت اپنے زمانے سے آگے جا پہنچتا ہے۔ کیسا عجیب تجربہ ہے اور اس کو الفاظ کی گرفت میں لانا کس قدر مشکل۔ لیکن فاروقی صاحب اس تجربے کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنی گرفت میں لے آتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا بیان بھی حیرت ناک ہے اور اس کو پڑھنے کا تجربہ بھی بہت انوکھا ہے۔
انتظار حسین
ہماری تہذیبی تاریخ کا وہ لمحہ یادگار تھا جب محمد حسین آزاد ادبی تاریخ لکھنے بیٹھے اور ان کے جادونگار قلم سے ایسے مرقعے سامنے آئے جو افسانوں کی سی دل چسپی کے ساتھ پڑھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں یہ کارنامہ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا ہے کہ تنقید لکھتے لکھتے ناول اور افسانے کی طرف آ گئے۔ ان کا یہ مختصر ناول ایسا ہے کہ پڑھنے والا دانتوں میں اُنگلی دبا لیتا ہے۔ ’’قبضِ زماں‘‘ کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے بھی وقت کے اس سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں...
ڈاکٹر اسلم فرخی
یوں تو شمس الرحمٰن فاروقی کے فکشن کو پڑھنا علمی، ادبی اور تہذیبی زندگی سے چھلکتے ہوئے ایک عہد میں جاکر بس جانے کا نام ہے مگر ان کے مختصر ناول ’’قبض زماں‘‘ کا مطالعہ یوں مختلف ہو جاتا ہے کہ یہ کسی ایک عہد کی تہذیبی زندگی پر محیط نہیں، اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس ناول میں ایک ایسا شخص ہے جس سے اس کا اپنا زمانہ اور وہ اپنے زمانے سے پچھڑ گیا ہے۔ وہ عجیب اور ناقابلِ یقین حالات سے گزرتے ہوئے ایک اور زمانے میں جا پڑتا ہے۔ یوں یہ ناول ہمیں ایک سے زیادہ زمانوں اور زمینوں کی سیر کراتا اور زندگی کے ان بھیدوں کے مقابل کرتا ہے جو سمے کی سمٹن سے نکلتے اور حیرت کی پھیلی آنکھ پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔
محمد حمید شاہد