CHAND KO GUL KAREN TO HUM JANEN
By: Osama Siddique
-
Rs 2,000.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
اس ناول نے میرے اندرعجیب و غریب کیفیات برپا کیں۔ اس کا ماحول تاریک ہے اور قدرے بھیانک بھی۔ نہایت وسیع پھیلائو ہونےکے باوجود مصنف نے بہت مہارت سے اور قدرے اختصار کے ساتھ ماضی، حال اور مستقبل کے نسبتی سلسلوں کی بنت کاری کی ہے۔ اس تجربے کا ماحصل یہ لرزا دینے والا تصور ہے کہ بدی یعنی حرص اور تخریب کی جبلت انسان کی تقدیر ہے۔ نہایت فن کاری سے لکھا گیا یہ ناول تاریخ و ثقافت کے طویل ادوار کو اپنے پُراعتماد بیانیے سے ایسے یکجا کرتا ہے کہ ماضی اور حال کی تصاویر اتنی ہی جاندار نظر آتی ہیں جتنا مستقبل کا تصور۔ ناول یہ کہتا محسوس ہوتا ہے کہ روز حاضر کے خوف آنے والے دنوں کے ہیبت ناک اندیشوں سے کچھ کم نہیں۔ علمیت اور ذہانت سے لبریز یہ تحریر پڑھنے والے کو لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی۔
(شمس الرحمٰن فاروقی)
میں نے اپنے کسی ناول میں لکھا تھا کہ وقت ایک تسلسل کے ساتھ گزرتا جاتا ہے اور ہم ٹھہرے ہوتے ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ وقت ہے جو تھم چکا ہے اور یہ ہم ہیں جو گزرتے جاتے ہیں۔ اسامہ صدیق کا ناول ’’چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس سراب کا شکار ہوا کہ وقت ٹھہر چکا ہے اور یہ اسامہ صدیق ہے جو اس میں گزرتا جاتا ہے۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب ایک کھوجی کی مانند سفر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوت وقت کے نقشِ پا کو دریافت کرنے کبھی تو الٹے قدموں ماضی میں چلی جاتی ہے اور کبھی مستقبل کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔ ماضی کا سفر آسان ہوتا ہے کہ آپ تحقیق اور وجدان کو بروئے کار لا کر اسے زندہ کر سکتے ہیں، موجودہ زمانہ آپ کی آنکھوں میں عکس ہوتا جاتا ہے اور آپ اسے اپنے مشاہدے میں منتقل کر کے بیان کر جاتے ہیں لیکن مستقبل میں اترنے کے لیے اپنی جان دائو پر لگانی پڑتی ہے اور یہ صرف قوتِ متخیّلہ ہے جس کے زور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی تصویرمیں کون سے کردار حرکت کریں گے۔ جیسے کچھ مہم جو گہرے غاروں کی تاریکی میں اتر جاتے ہیں اور نئی دُنیائیں دریافت کرتے ہیں ایسے ہی اسامہ اپنے تخیل کے سہارے مستقبل کے اجنبی اور نادریافت غاروں میں اترا ہے اور اَن دیکھی دُنیائوں کے باشندوں کو اپنے زورِ قلم سے زندہ کر دیا ہے۔ اسامہ جس آسانی اور قوت بھری روانی سے ماضی میں لوٹ جاتا ہے، پھر حال کا سفر اختیار کر کے مستقبل میں جا آباد ہوتا ہے، میرے لیے شدید حیرت کا باعث بنا۔ میں تو اپنے ناول ’’بہائو‘‘ کے کرداروں کی تلاش میں سرسوتی ندی کے سوکھتے ہوئے پانیوں تک جا پہنچا۔ موہنجوداڑو کی گلیوں کی مسافت اختیار کی۔ ان زمانوں میں واپس گیا تو بس وہیں رہ گیا، لوٹ آنا میرے بس میں نہ رہا اور اسامہ ہے کہ نہ صرف ماضی میں کچھ ایام بسر کرتا ہے، پھر حال کو بیان کرتے ہوئے مستقبل کی وادیوں میں کوہ نوردی کرنے لگتا ہے اور اس کے چہرے پر ان مسافتوں کی تھکن ہی نہیں ۔ اس کی تحریر کی دل کشی اور دل ربائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ادب کے آسمان پر اسامہ ایک ایسے ماہتاب کی مانند ابھرا ہے جو کبھی بجھایا تو نہ جائے گا۔
(مستنصر حسین تارڑ)
اُسامہ صدیق لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان بارہ سالوں کے علاوہ جو تحصیلِ علم اور ملازمت کے سلسلے میں لاہور سے دُور بیرونِ ملک گزارے، وہ باقی تمام عمر لاہور ہی سے جڑے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ طور پر وہ ایک معلم، محقق، مصنف، قانون دان اور پالیسی امور کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کیتھیڈرل ہائی سکول، کریسنٹ ماڈل سکول، گورنمنٹ کالج لاہور اور لمز (LUMS) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور Rhodes Scholar قانون کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ برصغیر کی قانونی تاریخ پر ان کی کتاب ’’Pakistan’s Experience with Formal Law: An Alien Justice ‘‘ جو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے چھاپی ہے اب تک کئی انعامات جیت چکی ہے۔ ان کا تاریخی ناول ’’Snuffing Out the Moon‘‘ سب سے پہلے پینگوئن رینڈم ہاؤس سے چھپا اوربہت مقبول ہوا۔ ان کے ہاں عالمی ادب، ہمارے خطے کے قصے، کہانیاں اور داستانیں، تاریخی تحقیق، سیاحت، قدیم کھنڈر، پُرانے درخت، اصلاحاتی کام اور بیش قیمت انسانی رشتے ان کی زندگی کی دلچسپیاں بھی ہیں... جستجو بھی ...اور حاصل بھی۔
----
ڈاکٹر عاصم بخشی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے فکشن تراجم سہ ماہی جرائد آج، دنیا زاد، نقاط اور آن لائن جریدے جائزہ ڈاٹ کام پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی افسانوی ادب کے علاوہ انھوں نے جوشوا ہیشل اور چارلس پرس کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کے نان فکشن تراجم کے مجموعے ’نئی زمینوں کی تلاش‘ نے 2017ء میں اُردو سائنس بورڈ کی طرف سے بہترین کتاب کا اُردو سائنس ایوارڈ حاصل کیا۔
اس ناول نے میرے اندرعجیب و غریب کیفیات برپا کیں۔ اس کا ماحول تاریک ہے اور قدرے بھیانک بھی۔ نہایت وسیع پھیلائو ہونےکے باوجود مصنف نے بہت مہارت سے اور قدرے اختصار کے ساتھ ماضی، حال اور مستقبل کے نسبتی سلسلوں کی بنت کاری کی ہے۔ اس تجربے کا ماحصل یہ لرزا دینے والا تصور ہے کہ بدی یعنی حرص اور تخریب کی جبلت انسان کی تقدیر ہے۔ نہایت فن کاری سے لکھا گیا یہ ناول تاریخ و ثقافت کے طویل ادوار کو اپنے پُراعتماد بیانیے سے ایسے یکجا کرتا ہے کہ ماضی اور حال کی تصاویر اتنی ہی جاندار نظر آتی ہیں جتنا مستقبل کا تصور۔ ناول یہ کہتا محسوس ہوتا ہے کہ روز حاضر کے خوف آنے والے دنوں کے ہیبت ناک اندیشوں سے کچھ کم نہیں۔ علمیت اور ذہانت سے لبریز یہ تحریر پڑھنے والے کو لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی۔
(شمس الرحمٰن فاروقی)
میں نے اپنے کسی ناول میں لکھا تھا کہ وقت ایک تسلسل کے ساتھ گزرتا جاتا ہے اور ہم ٹھہرے ہوتے ہیں لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ وقت ہے جو تھم چکا ہے اور یہ ہم ہیں جو گزرتے جاتے ہیں۔ اسامہ صدیق کا ناول ’’چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس سراب کا شکار ہوا کہ وقت ٹھہر چکا ہے اور یہ اسامہ صدیق ہے جو اس میں گزرتا جاتا ہے۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب ایک کھوجی کی مانند سفر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوت وقت کے نقشِ پا کو دریافت کرنے کبھی تو الٹے قدموں ماضی میں چلی جاتی ہے اور کبھی مستقبل کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔ ماضی کا سفر آسان ہوتا ہے کہ آپ تحقیق اور وجدان کو بروئے کار لا کر اسے زندہ کر سکتے ہیں، موجودہ زمانہ آپ کی آنکھوں میں عکس ہوتا جاتا ہے اور آپ اسے اپنے مشاہدے میں منتقل کر کے بیان کر جاتے ہیں لیکن مستقبل میں اترنے کے لیے اپنی جان دائو پر لگانی پڑتی ہے اور یہ صرف قوتِ متخیّلہ ہے جس کے زور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مستقبل کی تصویرمیں کون سے کردار حرکت کریں گے۔ جیسے کچھ مہم جو گہرے غاروں کی تاریکی میں اتر جاتے ہیں اور نئی دُنیائیں دریافت کرتے ہیں ایسے ہی اسامہ اپنے تخیل کے سہارے مستقبل کے اجنبی اور نادریافت غاروں میں اترا ہے اور اَن دیکھی دُنیائوں کے باشندوں کو اپنے زورِ قلم سے زندہ کر دیا ہے۔ اسامہ جس آسانی اور قوت بھری روانی سے ماضی میں لوٹ جاتا ہے، پھر حال کا سفر اختیار کر کے مستقبل میں جا آباد ہوتا ہے، میرے لیے شدید حیرت کا باعث بنا۔ میں تو اپنے ناول ’’بہائو‘‘ کے کرداروں کی تلاش میں سرسوتی ندی کے سوکھتے ہوئے پانیوں تک جا پہنچا۔ موہنجوداڑو کی گلیوں کی مسافت اختیار کی۔ ان زمانوں میں واپس گیا تو بس وہیں رہ گیا، لوٹ آنا میرے بس میں نہ رہا اور اسامہ ہے کہ نہ صرف ماضی میں کچھ ایام بسر کرتا ہے، پھر حال کو بیان کرتے ہوئے مستقبل کی وادیوں میں کوہ نوردی کرنے لگتا ہے اور اس کے چہرے پر ان مسافتوں کی تھکن ہی نہیں ۔ اس کی تحریر کی دل کشی اور دل ربائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ادب کے آسمان پر اسامہ ایک ایسے ماہتاب کی مانند ابھرا ہے جو کبھی بجھایا تو نہ جائے گا۔
(مستنصر حسین تارڑ)
اُسامہ صدیق لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان بارہ سالوں کے علاوہ جو تحصیلِ علم اور ملازمت کے سلسلے میں لاہور سے دُور بیرونِ ملک گزارے، وہ باقی تمام عمر لاہور ہی سے جڑے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ طور پر وہ ایک معلم، محقق، مصنف، قانون دان اور پالیسی امور کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کیتھیڈرل ہائی سکول، کریسنٹ ماڈل سکول، گورنمنٹ کالج لاہور اور لمز (LUMS) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور Rhodes Scholar قانون کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ برصغیر کی قانونی تاریخ پر ان کی کتاب ’’Pakistan’s Experience with Formal Law: An Alien Justice ‘‘ جو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے چھاپی ہے اب تک کئی انعامات جیت چکی ہے۔ ان کا تاریخی ناول ’’Snuffing Out the Moon‘‘ سب سے پہلے پینگوئن رینڈم ہاؤس سے چھپا اوربہت مقبول ہوا۔ ان کے ہاں عالمی ادب، ہمارے خطے کے قصے، کہانیاں اور داستانیں، تاریخی تحقیق، سیاحت، قدیم کھنڈر، پُرانے درخت، اصلاحاتی کام اور بیش قیمت انسانی رشتے ان کی زندگی کی دلچسپیاں بھی ہیں... جستجو بھی ...اور حاصل بھی۔
----
ڈاکٹر عاصم بخشی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے فکشن تراجم سہ ماہی جرائد آج، دنیا زاد، نقاط اور آن لائن جریدے جائزہ ڈاٹ کام پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی افسانوی ادب کے علاوہ انھوں نے جوشوا ہیشل اور چارلس پرس کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کے نان فکشن تراجم کے مجموعے ’نئی زمینوں کی تلاش‘ نے 2017ء میں اُردو سائنس بورڈ کی طرف سے بہترین کتاب کا اُردو سائنس ایوارڈ حاصل کیا۔