ANTON CHEKHOV : CHOTI BARI KAHANIYAN
By: Anton Chekhov
-
Rs 400.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
جنوبی رُوس، بحیرۂ آزوف کے شہر تاگانروگ، 17 جنوری 1860ء عظیم پرولتاری انقلاب سے 57 سال پہلے غربت زدہ گھر کے پانچ بچّوں میں تیسرے نمبر پر چیخوف کی پیدائش۔ دادا کھیت مزدور، باپ اشیائے خور و نوش فروش۔ ماں نہایت مہربان، باپ سخت گیر اور کٹ حجّت مذہبی۔ اولاد پر ہاتھ اٹھانا معمول۔ دُکان میں ہاتھ بٹانے اور چرچ میں مقدّس نغمات سرائی کے لیے باپ کا اصرار اور بادلِ ناخواستہ بیٹے کی آمادگی۔ یونانی طلبہ کے اسکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد مقامی ہائی اسکول (1869ء) میں داخلہ، عمر کے سولھویں اور اسکولی تعلیم کے آخری تین سال پہلے ماں باپ سے جدائی اور تنہائی۔ کاروباری نقصان اور دیوالیا ہو جانے پر ایمان دار اور غیر تجارتی وضع کے باپ کی گھر بار سمیٹ کے ماسکو منتقلی بلکہ فرار اور تنِ تنہا چیخوف کا تعلیمی سفر اور زندگی کشی کا عزم۔ نصاب سے زیادہ دوسرے مطالعے کا جنون تھا۔ ٹیوشن کرکے کسی نہ کسی طور تعلیمی سلسلہ برقرار رکھا اور 19 سال کی عمر میں گریجویشن کر لیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے تخلیقی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔ 1884ء میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس عرصے میں خاندان کی کفالت بھی ذمّے رہی۔ طب سے آمدنی ناکافی تھی۔ گھر چلانے کے لیے فری لانس صحافت اور ادبی کام کی مشقّت از بس لازم تھی۔ لکھنا محض شوق نہیں، اب ایک ضرورت بھی تھا۔ 1886ء میں مشہور ناول نگار دمِتری گریکو رووچ نے چیخوف کو نئی نسل کے اوّل درجے کا فن کار قرار دیا تھا۔ 1888ء سے 1904ء تک مختلف جرائد میں چیخوف نے پچاس سے زائد کہانیاں لکھی تھیں۔ ان کہانیوں نے بعد میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی اور بین الاقوامی ادب کوئی چیز ہے تو چیخوف کی یہ کہانیاں بےشک اس کا جزو لازم ہیں۔ لیو ٹالسٹائی چیخوف کے بہت قائل تھے اور ٹالسٹائی کا فرمودہ ہے کہ چیخوف ایک لاثانی فن کار ہے، زندگی کا فن کار۔ اس کی تخلیقات سارے عالمِ انسانیت کے لیے ہیں۔ چیخوف کے لیے مشہور ہے کہ اسے مختصر اور مناسب لفظوں میں مدّعا بیان کرنے پر قدرت تھی۔ کہتے ہیں وہ زندگی کی سطح سے نیچے جاکے حقائق تلاش کرتا تھا۔ اسے اپنے کرداروں کے خفیہ ارادے فاش کردینے کا ہنر آتا تھا۔چیخوف کے زمانے میں عظیم رُوسی انقلاب کا خمیر تیار ہو رہا تھا اور چار سُو ایک جنگ و جدل کا منظر تھا۔ تیرہ سال بعد یہ تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا چاہتا تھا مگر چیخوف کو بڑی جلدی تھی۔ مسیحااپنی مسیحائی نہ کرسکا۔ 14 / 15 جولائی 1904ء ، 44 سال کی عمر میں ایک رات چیخوف کی جسمی شکست و ریخت اپنے انجام کو پہنچی۔ کاش! ہر آدمی کا انجام ایک جیسا نہ ہوا کرتا۔ (شکیل عادل زادہ)
کچھ مترجم کے بارے میں:
سیّد محمد مہدی، صحافی، مترجم اور ڈرامہ نگار۔ بارہ بنکی، اُترپردیش کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مصطفیٰ آباد اور بھوپال میں ہوئی۔ 1939ء میں کرائسٹ کالج، کان پور سے بی اے پاس کیا۔ بعدازاں لکھنؤ چلے آئے جہاں قانون اور پولیٹکل سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ 1946ء میں بمبئی منتقل ہوگئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اُردو رسالے ’’نیا زمانہ‘‘ کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے۔ اسی زمانے میں اپنے دیرینہ دوست کیفی اعظمی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ’’محاذ‘‘ اور ’’تحریک‘‘ شائع کرتے رہے۔ مارکس ازم کی ترویج کے لیے وقف رسالہ ’’علم و دانش‘‘ کے لیے بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ 1950ءکے ابتدائی عشرے میں حیدرآباد چلے آئے اور روزنامہ ’’پیام‘‘ اور’’ عوام‘‘ کی ادارت کی۔ 1956ء میں دہلی منتقل ہوگئے جہاں عمر کا بیشتر حصہ گزارا۔ ہندوستان میں تھیٹر کی مقبولیت اور ڈرامہ کے ناظرین پر فوری اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرف راغب ہوئے اور پھر پوری زندگی تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے، جن میں ’’غالب کون ہے‘‘، ’’غالب کے اُڑیں گے پُرزے‘‘، ’’مُنی بائی حجاب‘‘، ’’جانِ غزل‘‘، ’’مارے گئے گلفام‘‘ اور ’’اقبال کا آدم‘‘ نہایت مقبول ہوئے۔ یہ ڈرامے شمالی ہندوستان کے بیشتر بڑے شہروں میں کھیلے گئے۔ بعدازاں یہ ڈرامے کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ زندگی بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اُردو ادب کو کئی مستند تراجم سے مالا مال کیا جن میں ’’بچپن، لڑکپن، جوانی‘‘ (ٹالسٹائی)، ’’ماں‘‘ (میکسم گورکی)، ’’پھانسی کے سائے میں‘‘ (جولیس فیوچک) اور ’’ماریچ کی کہانی‘‘ (ڈرامہ) نمایاں ہیں۔ ایک کتاب انگریزی میں ’’ماسکو تاشقند کانسپریسی کیس‘‘ کے نام سے بھی لکھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ بینائی کمزورہوتی چلی گئی مگر لکھنے کا سلسلہ نہ ٹوٹا ۔ اخبار’’قومی آواز‘‘ کے لیے سیاسی کالم لکھتے رہے۔ بھارتی سرکاری ٹی وی چینل ’’دُور دَرشن‘‘ نے ان کی یادداشتوں پر مبنی سیریز ’’ماموں جان کی ڈائری‘‘ کے نام سےنشر کی جس میں انھوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں اور دوستوں کے حوالے سےچشم دید واقعات سنائے۔آخر وقت میں علی گڑھ منتقل ہوگئے جہاںجنوری 2015ء میں 92 برس کی عمر میں وفات پائی۔
جنوبی رُوس، بحیرۂ آزوف کے شہر تاگانروگ، 17 جنوری 1860ء عظیم پرولتاری انقلاب سے 57 سال پہلے غربت زدہ گھر کے پانچ بچّوں میں تیسرے نمبر پر چیخوف کی پیدائش۔ دادا کھیت مزدور، باپ اشیائے خور و نوش فروش۔ ماں نہایت مہربان، باپ سخت گیر اور کٹ حجّت مذہبی۔ اولاد پر ہاتھ اٹھانا معمول۔ دُکان میں ہاتھ بٹانے اور چرچ میں مقدّس نغمات سرائی کے لیے باپ کا اصرار اور بادلِ ناخواستہ بیٹے کی آمادگی۔ یونانی طلبہ کے اسکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد مقامی ہائی اسکول (1869ء) میں داخلہ، عمر کے سولھویں اور اسکولی تعلیم کے آخری تین سال پہلے ماں باپ سے جدائی اور تنہائی۔ کاروباری نقصان اور دیوالیا ہو جانے پر ایمان دار اور غیر تجارتی وضع کے باپ کی گھر بار سمیٹ کے ماسکو منتقلی بلکہ فرار اور تنِ تنہا چیخوف کا تعلیمی سفر اور زندگی کشی کا عزم۔ نصاب سے زیادہ دوسرے مطالعے کا جنون تھا۔ ٹیوشن کرکے کسی نہ کسی طور تعلیمی سلسلہ برقرار رکھا اور 19 سال کی عمر میں گریجویشن کر لیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے تخلیقی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔ 1884ء میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس عرصے میں خاندان کی کفالت بھی ذمّے رہی۔ طب سے آمدنی ناکافی تھی۔ گھر چلانے کے لیے فری لانس صحافت اور ادبی کام کی مشقّت از بس لازم تھی۔ لکھنا محض شوق نہیں، اب ایک ضرورت بھی تھا۔ 1886ء میں مشہور ناول نگار دمِتری گریکو رووچ نے چیخوف کو نئی نسل کے اوّل درجے کا فن کار قرار دیا تھا۔ 1888ء سے 1904ء تک مختلف جرائد میں چیخوف نے پچاس سے زائد کہانیاں لکھی تھیں۔ ان کہانیوں نے بعد میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی اور بین الاقوامی ادب کوئی چیز ہے تو چیخوف کی یہ کہانیاں بےشک اس کا جزو لازم ہیں۔ لیو ٹالسٹائی چیخوف کے بہت قائل تھے اور ٹالسٹائی کا فرمودہ ہے کہ چیخوف ایک لاثانی فن کار ہے، زندگی کا فن کار۔ اس کی تخلیقات سارے عالمِ انسانیت کے لیے ہیں۔ چیخوف کے لیے مشہور ہے کہ اسے مختصر اور مناسب لفظوں میں مدّعا بیان کرنے پر قدرت تھی۔ کہتے ہیں وہ زندگی کی سطح سے نیچے جاکے حقائق تلاش کرتا تھا۔ اسے اپنے کرداروں کے خفیہ ارادے فاش کردینے کا ہنر آتا تھا۔چیخوف کے زمانے میں عظیم رُوسی انقلاب کا خمیر تیار ہو رہا تھا اور چار سُو ایک جنگ و جدل کا منظر تھا۔ تیرہ سال بعد یہ تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا چاہتا تھا مگر چیخوف کو بڑی جلدی تھی۔ مسیحااپنی مسیحائی نہ کرسکا۔ 14 / 15 جولائی 1904ء ، 44 سال کی عمر میں ایک رات چیخوف کی جسمی شکست و ریخت اپنے انجام کو پہنچی۔ کاش! ہر آدمی کا انجام ایک جیسا نہ ہوا کرتا۔ (شکیل عادل زادہ)
کچھ مترجم کے بارے میں:
سیّد محمد مہدی، صحافی، مترجم اور ڈرامہ نگار۔ بارہ بنکی، اُترپردیش کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مصطفیٰ آباد اور بھوپال میں ہوئی۔ 1939ء میں کرائسٹ کالج، کان پور سے بی اے پاس کیا۔ بعدازاں لکھنؤ چلے آئے جہاں قانون اور پولیٹکل سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ 1946ء میں بمبئی منتقل ہوگئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اُردو رسالے ’’نیا زمانہ‘‘ کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے۔ اسی زمانے میں اپنے دیرینہ دوست کیفی اعظمی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ’’محاذ‘‘ اور ’’تحریک‘‘ شائع کرتے رہے۔ مارکس ازم کی ترویج کے لیے وقف رسالہ ’’علم و دانش‘‘ کے لیے بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ 1950ءکے ابتدائی عشرے میں حیدرآباد چلے آئے اور روزنامہ ’’پیام‘‘ اور’’ عوام‘‘ کی ادارت کی۔ 1956ء میں دہلی منتقل ہوگئے جہاں عمر کا بیشتر حصہ گزارا۔ ہندوستان میں تھیٹر کی مقبولیت اور ڈرامہ کے ناظرین پر فوری اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرف راغب ہوئے اور پھر پوری زندگی تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے، جن میں ’’غالب کون ہے‘‘، ’’غالب کے اُڑیں گے پُرزے‘‘، ’’مُنی بائی حجاب‘‘، ’’جانِ غزل‘‘، ’’مارے گئے گلفام‘‘ اور ’’اقبال کا آدم‘‘ نہایت مقبول ہوئے۔ یہ ڈرامے شمالی ہندوستان کے بیشتر بڑے شہروں میں کھیلے گئے۔ بعدازاں یہ ڈرامے کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ زندگی بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اُردو ادب کو کئی مستند تراجم سے مالا مال کیا جن میں ’’بچپن، لڑکپن، جوانی‘‘ (ٹالسٹائی)، ’’ماں‘‘ (میکسم گورکی)، ’’پھانسی کے سائے میں‘‘ (جولیس فیوچک) اور ’’ماریچ کی کہانی‘‘ (ڈرامہ) نمایاں ہیں۔ ایک کتاب انگریزی میں ’’ماسکو تاشقند کانسپریسی کیس‘‘ کے نام سے بھی لکھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ بینائی کمزورہوتی چلی گئی مگر لکھنے کا سلسلہ نہ ٹوٹا ۔ اخبار’’قومی آواز‘‘ کے لیے سیاسی کالم لکھتے رہے۔ بھارتی سرکاری ٹی وی چینل ’’دُور دَرشن‘‘ نے ان کی یادداشتوں پر مبنی سیریز ’’ماموں جان کی ڈائری‘‘ کے نام سےنشر کی جس میں انھوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں اور دوستوں کے حوالے سےچشم دید واقعات سنائے۔آخر وقت میں علی گڑھ منتقل ہوگئے جہاںجنوری 2015ء میں 92 برس کی عمر میں وفات پائی۔