MERA PAKISTANI SAFARNAMA
By: Balraj Sahni
-
Rs 720.00
- Rs 800.00
- 10%
You save Rs 80.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
ہندوستانی فلم اور سٹیج اداکار بلراج ساہنی (یکم مئی 1913ء -13 اپریل 1973ء) کا خاندان 1947ء میں بھیرہ سے ہجرت کر کے بھارت چلا گیا۔ ان کے بھائی بھیشم ساہنی بھی ہندی کے مشہور مصنف، ڈرامانگار اور اداکار تھے۔ بلراج ساہنی راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم پائی۔ انگلش ادب میں ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ واپس راولپنڈی چلے گئے اور اپنے خاندان کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔ 1930ء کی دہائی کے اواخر میں وہ انگلش اور ہندی کے اُستاد کی حیثیت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی وِشو بھارتی یونیورسٹی (بنگال) چلے گئے۔ بلراج نے پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجینتی مالا اور نرگس کے ساتھ بندیا، سیما، سونے کی چڑیا، سٹہ بازار، بھابی کی چُوڑیاں، کٹھ پتلی، لاجونتی اور گھر سنسار جیسی فلموں میں کام کیا۔ نِیل کمل، گھر گھر کی کہانی، دو راستے اور ایک پھول دو مالی میں اُن کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ پنجابی کلاسک فلم ’’نانک دُکھیا سب سنسار‘‘ کے علاوہ ’’ستلج دے کنڈھے‘‘ کو بھی پذیرائی ملی۔ بلراج ساہنی نے بطور لکھاری بھی اپنے جوہر دکھائے۔ اُنھوں نے ہندی، انگلش اور پنجابی میں لکھا۔ 1962ء میں اپنے آبائی وطن (مغربی پنجاب) کا دورہ کرنے کے بعد یہ کتاب ’’میرا پاکستانی سفرنامہ‘‘ لکھی۔ یہ تقسیمِ ہند کی وجہ سے بے وطن ہونے والوں کے دُکھ بھرپور طریقے سے بیان کرتی ہے۔ وہ لاہور، جھنگ، سرگودھا، بھیرہ اور راولپنڈی میں تجربات اور ملاقاتوں کا حال بہت خوب صورت انداز میں بتاتے ہیں۔ اُن کے خالص پنجابی انداز کو ترجمے میں ہر ممکن حد تک برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے روس کا سفرنامہ بھی لکھا جسے سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ اُن کی نظمیں اور افسانے ادبی جرائد میں چھپتے رہے۔ ان کی خودنوشت ’’میری فلمی آتم کتھا‘‘ یعنی فلمی آپ بیتی کو بہت سراہا گیا۔ وہ نظریاتی اعتبار سے بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ اُنھوں نے پی کے وسُودیون نائر کے ساتھ مل کر آل انڈیا یوتھ فیڈریشن بنائی۔ وہ بعد میں اِس تنظیم کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ 1950ء کی دہائی میں دہلی میں غریبوں کے لیے لائبریری اور مطالعہ گاہ بنائی۔ آخری فلم ’’گرم ہوا‘‘ کی ڈبنگ مکمل ہوتے ہی اُن کی وفات ہو گئی۔ وہ اپنی بیٹی شبنم کی بے وقت موت کی وجہ سے شدید غم زدہ تھے۔
ہندوستانی فلم اور سٹیج اداکار بلراج ساہنی (یکم مئی 1913ء -13 اپریل 1973ء) کا خاندان 1947ء میں بھیرہ سے ہجرت کر کے بھارت چلا گیا۔ ان کے بھائی بھیشم ساہنی بھی ہندی کے مشہور مصنف، ڈرامانگار اور اداکار تھے۔ بلراج ساہنی راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم پائی۔ انگلش ادب میں ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ واپس راولپنڈی چلے گئے اور اپنے خاندان کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔ 1930ء کی دہائی کے اواخر میں وہ انگلش اور ہندی کے اُستاد کی حیثیت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی وِشو بھارتی یونیورسٹی (بنگال) چلے گئے۔ بلراج نے پدمنی، نوتن، مینا کماری، وجینتی مالا اور نرگس کے ساتھ بندیا، سیما، سونے کی چڑیا، سٹہ بازار، بھابی کی چُوڑیاں، کٹھ پتلی، لاجونتی اور گھر سنسار جیسی فلموں میں کام کیا۔ نِیل کمل، گھر گھر کی کہانی، دو راستے اور ایک پھول دو مالی میں اُن کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ پنجابی کلاسک فلم ’’نانک دُکھیا سب سنسار‘‘ کے علاوہ ’’ستلج دے کنڈھے‘‘ کو بھی پذیرائی ملی۔ بلراج ساہنی نے بطور لکھاری بھی اپنے جوہر دکھائے۔ اُنھوں نے ہندی، انگلش اور پنجابی میں لکھا۔ 1962ء میں اپنے آبائی وطن (مغربی پنجاب) کا دورہ کرنے کے بعد یہ کتاب ’’میرا پاکستانی سفرنامہ‘‘ لکھی۔ یہ تقسیمِ ہند کی وجہ سے بے وطن ہونے والوں کے دُکھ بھرپور طریقے سے بیان کرتی ہے۔ وہ لاہور، جھنگ، سرگودھا، بھیرہ اور راولپنڈی میں تجربات اور ملاقاتوں کا حال بہت خوب صورت انداز میں بتاتے ہیں۔ اُن کے خالص پنجابی انداز کو ترجمے میں ہر ممکن حد تک برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے روس کا سفرنامہ بھی لکھا جسے سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ اُن کی نظمیں اور افسانے ادبی جرائد میں چھپتے رہے۔ ان کی خودنوشت ’’میری فلمی آتم کتھا‘‘ یعنی فلمی آپ بیتی کو بہت سراہا گیا۔ وہ نظریاتی اعتبار سے بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ اُنھوں نے پی کے وسُودیون نائر کے ساتھ مل کر آل انڈیا یوتھ فیڈریشن بنائی۔ وہ بعد میں اِس تنظیم کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ 1950ء کی دہائی میں دہلی میں غریبوں کے لیے لائبریری اور مطالعہ گاہ بنائی۔ آخری فلم ’’گرم ہوا‘‘ کی ڈبنگ مکمل ہوتے ہی اُن کی وفات ہو گئی۔ وہ اپنی بیٹی شبنم کی بے وقت موت کی وجہ سے شدید غم زدہ تھے۔