Chaar Aadmi (Urdu)
By: Dr. Muhammad Amjad Saqib
-
Rs 1,500.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
منتخب اور محبوب، ڈاکٹر امجد ثاقب ایک منفرد آدمی ہیں۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک، زندگی کو جو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ فہم و فراست پروردگار نے آدم زاد کو اسی لیے عطا کی تھی۔ کم ہیں مگر بہت ہی کم جو خیال کی شمع روشن کرتے اور اپنی ترجیحات خود طے کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے اٹھے کہ والدین کی تمنّا یہی تھی۔ سول سروس کا رُخ کیا لیکن وہاں بھی جی نہ لگا۔ ایک آزاد ذہن الگ اپنی دنیا بسانا چاہتا ہے۔ بالآخر اس راہ پہ وہ چل نکلے، جہاں سے پورے ملک اور اب اس سے بھی پرے، روشنی پھیل رہی ہے۔ رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے مگر مسلسل اور پیہم۔ ان کی رضاکارانہ خدمات کے اعتراف میں ملکۂ برطانیہ کی جانب سے انھیں "Common Wealth's Point of Light"کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ورلڈاکنامک فورم کی طرف سے "Entrepreneur of the Year 2018"کے مستحق ٹھہرے۔ صدرِپاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز ملا۔ حال ہی میں ایشیا کا سب سے بڑا اعزاز ’’ریمون میگ سائے سائے‘‘، جسے ایشین نوبیل پرائز بھی کہتے ہیں، پیش کیا گیا۔ وہ کئی کُتب کے مصنّف اور مقبول مقرّر بھی ہیں جنھیں آکسفرڈ، کیمبرج، ہارورڈ اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں میں اظہارِ خیال کے متعدد مواقع ملے۔ نوبیل انعام بھی مل گیا ہوتا مگر وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی۔ یہ کتاب تین آدمیوں کی کہانی ہے اور پھر ان کی اپنی۔ آدمی تاریخ ساز شخصیات کے سحر میں مبتلا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امجدثاقب عام لوگوں کی زندگیوں میں اُترتے ہیں۔ عجیب تر یہ ہے کہ ان زندگیوں میں سے لعل و گُہر بھی ڈھونڈ لاتے ہیں۔ ان کے بہت سے کارنامے ہیں لیکن درد اور احساس جسے بخشا گیا، سب کچھ اسے بخش دیا گیا۔ ہر زمانے میں بہت سے ممتاز لوگ ہوتے ہیں، ہمارے عہد میں بھی۔ عملی طور پر لیکن چند ایک ہی نے واقعی کچھ کر دکھایا۔ ڈاکٹر امجدثاقب ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے سال ہا سال سے خاک بسر مخلوق کو سینے سے لگایا۔ ایک ایسی دُنیا کا خواب دیکھا جس میں ہر شخص کو عزت اور احترام سے زندہ رہنے کا موقع ملے، پھر خوش دلی سے خود کو اس خواب کی تعبیر کے لیے وقف کر دیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
اقباؔل نے کہا تھا، جہاں کہیں دُنیا میں روشنی ہے، مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہے یا مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں۔ ہمہ گیر یہ اُجالا، ہجرت کے فوراً بعد مواخات کی یادگار ہے۔ اسی چراغ سے جو چراغ جلے، کبھی نہیں بجھتا۔
آپؐ ان کے لیے بھی رحمت ہیں
جو زمانے ابھی نہیں آئے
ہارون الرشید
منتخب اور محبوب، ڈاکٹر امجد ثاقب ایک منفرد آدمی ہیں۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک، زندگی کو جو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ فہم و فراست پروردگار نے آدم زاد کو اسی لیے عطا کی تھی۔ کم ہیں مگر بہت ہی کم جو خیال کی شمع روشن کرتے اور اپنی ترجیحات خود طے کرتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے اٹھے کہ والدین کی تمنّا یہی تھی۔ سول سروس کا رُخ کیا لیکن وہاں بھی جی نہ لگا۔ ایک آزاد ذہن الگ اپنی دنیا بسانا چاہتا ہے۔ بالآخر اس راہ پہ وہ چل نکلے، جہاں سے پورے ملک اور اب اس سے بھی پرے، روشنی پھیل رہی ہے۔ رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے مگر مسلسل اور پیہم۔ ان کی رضاکارانہ خدمات کے اعتراف میں ملکۂ برطانیہ کی جانب سے انھیں "Common Wealth's Point of Light"کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ورلڈاکنامک فورم کی طرف سے "Entrepreneur of the Year 2018"کے مستحق ٹھہرے۔ صدرِپاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز ملا۔ حال ہی میں ایشیا کا سب سے بڑا اعزاز ’’ریمون میگ سائے سائے‘‘، جسے ایشین نوبیل پرائز بھی کہتے ہیں، پیش کیا گیا۔ وہ کئی کُتب کے مصنّف اور مقبول مقرّر بھی ہیں جنھیں آکسفرڈ، کیمبرج، ہارورڈ اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں میں اظہارِ خیال کے متعدد مواقع ملے۔ نوبیل انعام بھی مل گیا ہوتا مگر وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی۔ یہ کتاب تین آدمیوں کی کہانی ہے اور پھر ان کی اپنی۔ آدمی تاریخ ساز شخصیات کے سحر میں مبتلا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امجدثاقب عام لوگوں کی زندگیوں میں اُترتے ہیں۔ عجیب تر یہ ہے کہ ان زندگیوں میں سے لعل و گُہر بھی ڈھونڈ لاتے ہیں۔ ان کے بہت سے کارنامے ہیں لیکن درد اور احساس جسے بخشا گیا، سب کچھ اسے بخش دیا گیا۔ ہر زمانے میں بہت سے ممتاز لوگ ہوتے ہیں، ہمارے عہد میں بھی۔ عملی طور پر لیکن چند ایک ہی نے واقعی کچھ کر دکھایا۔ ڈاکٹر امجدثاقب ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے سال ہا سال سے خاک بسر مخلوق کو سینے سے لگایا۔ ایک ایسی دُنیا کا خواب دیکھا جس میں ہر شخص کو عزت اور احترام سے زندہ رہنے کا موقع ملے، پھر خوش دلی سے خود کو اس خواب کی تعبیر کے لیے وقف کر دیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
اقباؔل نے کہا تھا، جہاں کہیں دُنیا میں روشنی ہے، مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہے یا مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں۔ ہمہ گیر یہ اُجالا، ہجرت کے فوراً بعد مواخات کی یادگار ہے۔ اسی چراغ سے جو چراغ جلے، کبھی نہیں بجھتا۔
آپؐ ان کے لیے بھی رحمت ہیں
جو زمانے ابھی نہیں آئے
ہارون الرشید