YOUNUS EMRE: MOHABBAT KA SAFAR
By: KALEEM ELAHI AMJAD
-
Rs 1,200.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
2019ء کی آخری رات کو الوداع کہتے ہوئے اور 2020ءکی پہلی رات کا دھوم دھام سے استقبال کرتے ہوئے یہ توقع کی جارہی تھی کہ نیا سال نئی روایات،نئی امنگوں اور نئی خوشیوں کے ساتھ طلوع ہوگا لیکن کون جانتا تھا کہ قضاو قدرکافیصلہ کچھ اور ہے۔تدبیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر کے اپنے۔یہ سب جانتے ہیں کہ قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ ہو کر رہتے ہیں اور وہی کچھ ہوا جو دنیا کی تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔
2020ء کا سورج اپنے جلو میں کرونا وائرس کی مہلک وبا کو لے کر طلوع ہوا او ردیکھتے ہی دیکھتے چاروں اور اس وبا نے ڈیرے ڈال دیے۔جگمگاتی اور شور مچاتی کائنات مہیب سناٹے کا نقشہ پیش کرنے لگی۔سکول بند،دفتر بند،مارکیٹیں بند،ٹرانسپورٹ بند۔بس ایک سانس باقی رہ گئی تھی جس کا بند ہونا باقی تھا۔زندگی کا پہیہ رُک گیا۔انسان، انسان سے خوف کھانے لگا۔ارسطو نے انسان کو معاشرتی حیوان کہا تھا کہ وہ تنہائی میں زندگی نہیں گزار سکتا۔اب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ نظریہ بھی دم توڑنے لگا ہے اور ڈارون کا نظریہ اُلٹے قدموں اپنی حقیقت کو پانے لگا ہے۔
ایسے میں وقت گزارنے اورطبعیتوں کو بہلانےکے لیے کسی نے کتاب سے رشتہ جوڑا توکسی نے فلموں اور ڈراموں سے۔کسی نے فیس بک میں پناہ ڈھونڈھی تو کسی نے انٹر نیٹ میں۔زندگی اگر نظر آتی بھی تھی تو صرف فیس بک پر ،بل کہ وہاں بھی خوف زَدہ خبروں اور اطلاعات کاتانتا بندھا ہوا تھا۔اسی خوف کے عالم میں پاکستان میں تُرک ڈراما سیریل " دیریلش ارطغرل" (Diriliş Ertuğrul)کا چرچہ عام ہوا،اُردو ڈبنگ ہوئی اور یہ ڈراما آن ائیر ہو گیا۔یہ شان دار ڈراما سیریل ترکوں کی تہذیب و ثقافت کا امین اور شان دار ماضی کی جھلک دکھاتا ہے۔ڈراما نشر کیا ہوا،بچوں،بوڑھوں اور جوانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ وزیراعظم عمران خان پہلے سے ہی اس ڈرامے کی اُردو ڈبنگ کے نشر کیے جانےکی نوید سنا چکے تھے۔بعد میں اُنھوں نے ایک پریس کانفرنس میں ایک اور ترک ڈراما سیریل "یونس ایمرے:محبت کا سفر" کا بھی ذکرکیا۔عوام نے پہلی بار یونس ایمرے کا نام سنا تھا اور اس کاتعلق بھی ان کے پسندیدہ موضوع یعنی محبت و انسان دوستی سے تھا۔پی ٹی وی کا انتظا رکون کرتا۔یو ٹیوب پر اس سیریل کوتلاش کیااور پھر دیکھنا شروع کیا۔جوں جوں ڈراما آگے بڑھتا گیا،ڈرامے سے ہی نہیں، یونس ایمرے کی شخصیت سے بھی دِل چسپی بڑھتی گئی۔دوسرے لفظوں میں اِس ڈرامے کے ذریعے یونس ایمرے سے روحانی رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ انٹرنیٹ، یوٹیوب غرض جہاں سے بھی یونس ایمرے سے متعلق موادمیسر آیا،اس کو پڑھنا شروع کیا۔ایسے میں بک کارنر،جہلم کے رُوح رواں، برادرم اَمر شاہد نے خواہش ظاہر کی کہ وہ یونس ایمرے پر ایک کتاب شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یونس ایمرے کی متاثر کن شخصیت سے محبت اور عقیدت تو پہلے ہی قائم ہو چکی تھی،اب اس محبت کے عملی اظہار کا موقع بھی میسر آ گیا۔یونس ایمرے کی شخصیت سے عقیدت مندی،ان کے کلام کے اثر اوراَمر شاہدصاحب کی خواہش کے احترام میں بسم اللہ پڑھی اور کام کا ڈول ڈال دیا۔چند ماہ کا قلیل وقت اوراپنی کم مائیگی کا باربار احساس میرے ارادوں کے درمیان حائل ہوتا رہا، لیکن ہمت نہ ہاری۔مواد کی تلاش میں انٹر نیٹ اور کتاب خانوں پر دستک دی۔دوستوں سے تعاون کی درخواست کی۔امید کی شمع جلنے لگی تو اس کی روشنی میں کام کاآغاز کیا۔چل رے خامہ بسم اللہ۔
حیرت اِس امر پر ہے کہ ترک جس شخصیت کو رومیؒ سے بڑھ کر چاہتے ہیں،اس شخصیت پر اُردو میں فقط دو کتابیں۔ایک کتاب"یونس امریہ:ترکی کا عظیم شاعر" کے نام سے 1974ء میں علاقائی ثقافتی ادارہ (آر–سی-ڈی) نے شائع کی تھی۔یہ کتاب معروف ترک ادیب اور سیاست دان طلعت سعید حلمان کے خطبے"Yunus Emre`s Humanism " کا ترجمہ ہے۔یہ خطبہ انھوں نے 1971ء میں ترکی میں یونس ایمر ے پر ایک بین الاقوامی سیمینار میں پڑھا تھا۔اس کتاب میں یونس کی کچھ منظومات کا جزوی اور کچھ کا مکمل اُردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔مترجم کا نام "احسن علی خان" ہے۔ا س میں شک نہیں کہ مترجم نے ترجمہ میں کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔یونس شناسی میں یہ کتاب بہت مدد گار ہے۔دوسری کتاب "یونس ایمرے:ترکی کے عظیم عوامی شاعر کی سوانح حیات،فکر و فن اور منتخب کلام" ہے۔اس کے مرتِّب ڈاکٹرنثار احمد اَسرار ہیں،جو انقرہ میں پاکستانی سفارت خانے میں 26 برس افسرِ اطلاعات رہے۔ڈاکٹر نثار احمد اَسرار نے ترکی، اُردو، انگریزی میں بہت سا علمی و ادبی کام بھی کیا اور مشہور ترک عاکف ایرصوئے کے کلام کا بھی ترجمہ کرکے اسے اُردو داں طبقے میں متعارف کرایا۔یہ کتاب 1991ء میں اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد کی طرف سے شائع ہوئی۔اس کتاب میں لگ بھگ ڈیڑھ سو منظومات کا اُردو ترجمہ اور یونس ایمرے کی شخصیت پر دو ایک مضامین شامل ہیں۔اُردو میں ان دوکتابوں کے علاوہ تیسری کتاب راقم کی نظر سے نہیں گزری۔تاہم جب وزیر اعظم عمران خان نےیونس ایمرے کاتذکرہ کیاتو کچھ اخبارات و رسائل میں یونس ایمرے پر چند کالم شائع ضرور ہوئے۔مولانا روم کی شخصیت،شاعری اور افکار و نظریات پر تو اُردو زبان میں کثیر تعداد میں کتب دستیاب ہیں لیکن حیرت اس امر پرہے کہ یونس ایمرے اُردو زبان سے کس طرح نظر انداز ہو گئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات کے نصاب میں عالمی ادب کے مضمون کے انگریزی اور اُردو نصاب کے مطالعات میں یونس ایمرے کو بھی شامل کیا جائے۔
دِل چسپ بات یہ ہے کہ انگریزی زبان میں یونس ایمرے کی شخصیت پر قابل قدر کام ہوا ہے۔یونس ایمرے کے کلام کے انگریزی تراجم کثیر تعداد میں دستیاب ہیں۔یونس ایمرے کے فکر و فلسفہ کےحوالےسے بھی خاصی کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئیں۔ان میں سے چند قابل ذکر درج ذیل ہیں:
1- The City of Heart, Suha Faiz, Great Britian, Element Books, Shhaftesbury, 1992.
2- The Poetry of Yunus Emre: A Turkish Poet, Grace Martin Smith, University of California, 1993.
3- The Drop That Becomes The Sea,Kabir Helminski & Refik Alan,Threshold Books,welmot,1989
4- Yunus Emre`s Ghazals, Translation & Introduction, Paul Smith,Createspace Independent Publishing Platform, 2018
5- Yunus Emre:Life & Poems,Paul Smith,Translation & Introduction,Createspace Independent Publications, 2014
6- Sufi Flights: Poems of Yunus Emre, Judith Reynolds Brown, 2010
7- Journey to The Beloved, Sufi Poems of Yunus Emre, Ersin Baki,Kopernik, Turkey,2018
8- Selected Poems of Divan of Yunus Emre, Profil Yayincilik, Istanbul,2013
9- Yunus Emre:Selected Poems,Tallat Saeet Halman, Minstery of Cultutre & Tourism,Ankra,1988
10- Yunus Emre and His Mystical Poetry,Tallat Saeet Halman,Indian University,1991
ترکی زبان میں عبد الباقی گلپنارلی،فاروق تیمورتاش اور مصطفیٰ تاتشی،ترگت دردران نے یونس ایمرے کی شخصیت اور فن کو اپنی تحقیق وتنقید کاموضوع بنایا ہے۔یہی نہیں، یونس ایمرے کی شخصیت اور افکار کو محمد بوزداغ نے تخلیقی رنگ و آہنگ کے ساتھ "یونس ایمرے :محبت کا سفر"( Yunus Emre: AşkınYolculuğu) کے نام سے ڈرامائی تشکیل دی۔اس ڈراما سریل کی نشریات کا آغاز ترکی کے سرکاری چینل"ٹی آر ٹی 1"(TRT 1) پر 18 جون 2015ء کو ہوا۔افغانی ٹی وی چینل "شمشاد ٹی وی" (Shamshad TV) پر اس ڈراما سریل کی پشتو ڈبنگ بھی نشر کی جا رہی ہے۔
ترک شاعری کی روایت میں یونس ایمرے کا نام سرفہرست ہے۔ان کا کلام گہری فکر، معنوی جواہر اور فنی خوبیوں سے مملو ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سات صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان کے گیت اور نظمیں ترک عوام کی زبانوں پر آج بھی جاری و ساری ہیں گویا یونس ایمرے ترکوں کے ذہنوں ہی میں نہیں زبانوں پر بھی زندہ ہیں۔آفاقی ادب زمان ومکان کی حدود و قیود سے ماوراہوتا ہے۔ہیومر، ملٹن، شیکسپیئر، سعدی، حافظ، رومی، خسرو، غالب،میر اور اقبال وہ شاعر ہیں جن کی تخلیقی معنویت وقت کی میزان پر پورا اُترتی ہے۔یونس ایمرے کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہے کہ اس کے موضوعات ہی آفاقی نہیں بل کہ جس طرح اُنھوں نے ان موضوعات کو فن کے سانچے میں ڈھالا ہے،وہ بھی آفاقی شاعروں کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔
عشق و محبت اور انسان دوستی کا پیغام لیے ان کا کلام آج بھی ہمارے دِلوں کے تاروں کو مُرتعش کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یونس ایمرے ترک قوم کی انسان دوست روایت کاصحیح معنوں میں نمایندہ شاعر ہے۔وہ تمام نسل انسانی کو امن،دوستی اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔اس نے رنگ و نسل،قومیت اور لسانی بنیادوں پر اختلافات کی مذمت کی اور انسانوں کو امن و آشتی اور پیار ومحبت سے رہنے کا درس دیااورنفرتوں اور عداوتوں کو مٹانے اور اچھی زندگی گزارنے کی تلقین کی کہ یہ پیغمبروں کا شیوہ ہے اور عظیم شخصیات اپنی فکری قوت اسی سرچشمے سے حاصل کرتی ہیں۔
نفرت میری واحد دشمن
ساری دنیا میرا نشیمن
٭
میں آیا نہیں بہر جنگ و عداوت
مرا مقصدِ زندگی ہے محبت
٭
دارِ فانی میں اچھی گزارو حیات
یاں ہمیشہ کسی کو بھی رہنا نہیں
٭
اگر دل دکھایا ہے تو نے کسی کا
تو بے کار ہیں تیرے صوم و صلوٰۃ
٭
آو باہم کریں دائمی دوستی
تاکہ آسان ہو جائے یہ زندگی
آو عاشق بنیں اور معشوق بھی
کیسی رنجش،کسی کی نہیں یہ زمیں
زیر نظر کتاب اُردو میں یونس ایمرے کی شخصیت اور فکر و فلسفہ کو متعارف کروانے کی اوّلین کوشش تو نہیں،البتہ یونس ایمرے کی شخصیت، شاعری اور کارناموں کو مربوط ومفٗصّل انداز میں پیش کرنے کی اوّلین کوشش ضرور کہی جاسکتی ہے۔کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاہے:
1-حِصّہ اول: یونس ایمرے:احوال و آثار
2-حِصّہ دوم: ایمرے شناسی:متفرق مضامین
3-حِصّہ سوم:انتخاب ِکلام (انگریزی و اُردو تراجم)
حِصّہ اوّل کے مباحث حسب ِ ذیل ہیں:
1-عہدِ یونس پر ایک طائرانہ نظر
2- یونس ایمرے :سوانحی خاکہ
3-یونس ایمرے کا شعری اثاثہ
4-یونس ایمرے :فکر و فن
5-یونس ایمرے کی شاعری: عالمی تناظر میں
حِصّہ دوم متفرق مضامین پرمشتمل ہے۔یہ مضامین انگریزی تحریروں کےتراجم پرمشتمل ہیں۔ان مضامین میں ایک مضمون معروف ترک سیاست دان اور ادیب نامک کمال زیبک کا تحریر کردہ ہے، ایک مضمون معروف ترک ادیب اور سلسلہ مولویہ کے درویش بزرگ کبیر حلے مینسکی کے زائیدہ فکر سے ہے اور ایک مقالہ این میری شمل کا قلم بند کیا ہوا ہے۔این میری شمل کے مقالے میں بہت سی غیرمتعلقہ تفصیلات تھیں جنھیں ترجمہ میں شامل نہیں کیا گیا۔اِس ترجمے کوترجمہ سے زیادہ ترجمانی کی کوشش سمجھا جائے۔اس مضمون کا ترجمہ کرتے ہوئے عبارت سے زیادہ مفہوم کو مقدم رکھا گیا ہے ۔
حِصّہ سوم یونس ایمرے کے منتخب کلام کے انگریزی اور اُردو تراجم پر مشتمل ہے۔اس حِصّے میں لگ بھگ سو نظموں کے تراجم شامل ہیں جن میں کچھ جزوی نمایندگی کرتے ہیں اور کچھ مکمل۔اُردو تراجم ڈاکٹر نثار احمد اَسرار اور احسن علی خان کی کوشش و کاوش کا نتیجہ ہیں، جب کہ انگریزی تراجم درج ذیل کتابوں سے ماخوذہے:
1- The City of Heart, Suha Faiz, Published in Geat Britian, Element Books, Shhaftesbury, 1992.
2- The Poetry of Yunus Emre: A Turkish Poet, Grace Martin Smith, Published by University of California, 1993.
3- The Drop That Becomes The Sea,Kabir Helminski & Refik Alan,Threshold Books,welmot,1989
4- Yunus Emre:Selected Poems, Tallat Saeet Halman, Minstery of Cultutre & Tourism,Ankra,1988
شامل کتاب منظومات کے ترکی متن کی پہلی پہلی سطر کا حوالہ کتاب کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے تاکہ متعلقہ نظم یا غزل کو یونس ایمرے کے دیوان میں تلاش کرنے میں آسانی رہے۔
کتاب کےآغاز میں یونس ایمرے کی شخصیت اور عہد سے متعلق کچھ تصاویرشائع کی گئی ہیں،جو یقیناً قارئین کے لیے دلچسپی کی حامل ہوں گی۔مزید یہ کہ یونس ایمرے کے دیوان کی مختلف اشاعتوں کی کچھ عکسی نقول بھی شامل کتاب کی گئی ہیں۔کتاب کی تیاری و تکمیل میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے،ان کا اندراج کتابیات کے ضمن میں کردیا گیاہے۔کتاب کی تیاری میں زیادہ استفادہ انگریزی کتب سے کیا گیا ہے، تاہم مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں ترکی ماخذات سے استفادہ نہیں کر سکا۔اِس معاملےمیں مجھے بھی امیر خسرو کا ہم زبان سمجھیے۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
اگر میں یونس ایمرے کا پیغام قارئین تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تو سمجھوں گا کہ میری محنت اکارت نہیں گئی۔اس سے زیادہ کا مجھے دعویٰ نہیں۔یہ پہلی کوشش ہے اور کوتاہیاں اور خامیاں توابتدائی کوشش کے ساتھ اکثر جڑی ہی ہوتی ہیں۔بشرطِ زندگی یونس ایمرے کے فکر و فلسفہ پر مستقبل میں ایک مفصَّل اور جامع کتاب پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
اپنے بھتیجے احمد اویس کا شکر گزار ہوں۔اس نے کتاب کی تیاری میں بہت مدد کی۔اس کےعلاوہ اپنے بھائی سلیم الٰہی طالب کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے کتاب کا خوب صورت سرِ ورق تیار کیا۔میری کامیابیوں میں میرے اساتذہ ڈاکٹر وحید الرحمان خان،ڈاکٹر سلمان بھٹی،ڈاکٹر نبیل احمد نبیل،ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ اور ڈاکٹر ابرار عبد السلام کاہمیشہ نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ بک کارنر جہلم کے رُوح ِرواں اَمر شاہد کا بھی ممنون و مشکورہوں بلاشبہ یہ کتاب انھی کی تحریک پر تیار کی گئی۔ اللہ تعالیٰ سے ان سب کےلیے خیر کا طالب ہوں۔خدا ہم سب کاحامی و ناصر ہو۔آمین!
2019ء کی آخری رات کو الوداع کہتے ہوئے اور 2020ءکی پہلی رات کا دھوم دھام سے استقبال کرتے ہوئے یہ توقع کی جارہی تھی کہ نیا سال نئی روایات،نئی امنگوں اور نئی خوشیوں کے ساتھ طلوع ہوگا لیکن کون جانتا تھا کہ قضاو قدرکافیصلہ کچھ اور ہے۔تدبیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر کے اپنے۔یہ سب جانتے ہیں کہ قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ ہو کر رہتے ہیں اور وہی کچھ ہوا جو دنیا کی تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔
2020ء کا سورج اپنے جلو میں کرونا وائرس کی مہلک وبا کو لے کر طلوع ہوا او ردیکھتے ہی دیکھتے چاروں اور اس وبا نے ڈیرے ڈال دیے۔جگمگاتی اور شور مچاتی کائنات مہیب سناٹے کا نقشہ پیش کرنے لگی۔سکول بند،دفتر بند،مارکیٹیں بند،ٹرانسپورٹ بند۔بس ایک سانس باقی رہ گئی تھی جس کا بند ہونا باقی تھا۔زندگی کا پہیہ رُک گیا۔انسان، انسان سے خوف کھانے لگا۔ارسطو نے انسان کو معاشرتی حیوان کہا تھا کہ وہ تنہائی میں زندگی نہیں گزار سکتا۔اب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ نظریہ بھی دم توڑنے لگا ہے اور ڈارون کا نظریہ اُلٹے قدموں اپنی حقیقت کو پانے لگا ہے۔
ایسے میں وقت گزارنے اورطبعیتوں کو بہلانےکے لیے کسی نے کتاب سے رشتہ جوڑا توکسی نے فلموں اور ڈراموں سے۔کسی نے فیس بک میں پناہ ڈھونڈھی تو کسی نے انٹر نیٹ میں۔زندگی اگر نظر آتی بھی تھی تو صرف فیس بک پر ،بل کہ وہاں بھی خوف زَدہ خبروں اور اطلاعات کاتانتا بندھا ہوا تھا۔اسی خوف کے عالم میں پاکستان میں تُرک ڈراما سیریل " دیریلش ارطغرل" (Diriliş Ertuğrul)کا چرچہ عام ہوا،اُردو ڈبنگ ہوئی اور یہ ڈراما آن ائیر ہو گیا۔یہ شان دار ڈراما سیریل ترکوں کی تہذیب و ثقافت کا امین اور شان دار ماضی کی جھلک دکھاتا ہے۔ڈراما نشر کیا ہوا،بچوں،بوڑھوں اور جوانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ وزیراعظم عمران خان پہلے سے ہی اس ڈرامے کی اُردو ڈبنگ کے نشر کیے جانےکی نوید سنا چکے تھے۔بعد میں اُنھوں نے ایک پریس کانفرنس میں ایک اور ترک ڈراما سیریل "یونس ایمرے:محبت کا سفر" کا بھی ذکرکیا۔عوام نے پہلی بار یونس ایمرے کا نام سنا تھا اور اس کاتعلق بھی ان کے پسندیدہ موضوع یعنی محبت و انسان دوستی سے تھا۔پی ٹی وی کا انتظا رکون کرتا۔یو ٹیوب پر اس سیریل کوتلاش کیااور پھر دیکھنا شروع کیا۔جوں جوں ڈراما آگے بڑھتا گیا،ڈرامے سے ہی نہیں، یونس ایمرے کی شخصیت سے بھی دِل چسپی بڑھتی گئی۔دوسرے لفظوں میں اِس ڈرامے کے ذریعے یونس ایمرے سے روحانی رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ انٹرنیٹ، یوٹیوب غرض جہاں سے بھی یونس ایمرے سے متعلق موادمیسر آیا،اس کو پڑھنا شروع کیا۔ایسے میں بک کارنر،جہلم کے رُوح رواں، برادرم اَمر شاہد نے خواہش ظاہر کی کہ وہ یونس ایمرے پر ایک کتاب شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یونس ایمرے کی متاثر کن شخصیت سے محبت اور عقیدت تو پہلے ہی قائم ہو چکی تھی،اب اس محبت کے عملی اظہار کا موقع بھی میسر آ گیا۔یونس ایمرے کی شخصیت سے عقیدت مندی،ان کے کلام کے اثر اوراَمر شاہدصاحب کی خواہش کے احترام میں بسم اللہ پڑھی اور کام کا ڈول ڈال دیا۔چند ماہ کا قلیل وقت اوراپنی کم مائیگی کا باربار احساس میرے ارادوں کے درمیان حائل ہوتا رہا، لیکن ہمت نہ ہاری۔مواد کی تلاش میں انٹر نیٹ اور کتاب خانوں پر دستک دی۔دوستوں سے تعاون کی درخواست کی۔امید کی شمع جلنے لگی تو اس کی روشنی میں کام کاآغاز کیا۔چل رے خامہ بسم اللہ۔
حیرت اِس امر پر ہے کہ ترک جس شخصیت کو رومیؒ سے بڑھ کر چاہتے ہیں،اس شخصیت پر اُردو میں فقط دو کتابیں۔ایک کتاب"یونس امریہ:ترکی کا عظیم شاعر" کے نام سے 1974ء میں علاقائی ثقافتی ادارہ (آر–سی-ڈی) نے شائع کی تھی۔یہ کتاب معروف ترک ادیب اور سیاست دان طلعت سعید حلمان کے خطبے"Yunus Emre`s Humanism " کا ترجمہ ہے۔یہ خطبہ انھوں نے 1971ء میں ترکی میں یونس ایمر ے پر ایک بین الاقوامی سیمینار میں پڑھا تھا۔اس کتاب میں یونس کی کچھ منظومات کا جزوی اور کچھ کا مکمل اُردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔مترجم کا نام "احسن علی خان" ہے۔ا س میں شک نہیں کہ مترجم نے ترجمہ میں کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔یونس شناسی میں یہ کتاب بہت مدد گار ہے۔دوسری کتاب "یونس ایمرے:ترکی کے عظیم عوامی شاعر کی سوانح حیات،فکر و فن اور منتخب کلام" ہے۔اس کے مرتِّب ڈاکٹرنثار احمد اَسرار ہیں،جو انقرہ میں پاکستانی سفارت خانے میں 26 برس افسرِ اطلاعات رہے۔ڈاکٹر نثار احمد اَسرار نے ترکی، اُردو، انگریزی میں بہت سا علمی و ادبی کام بھی کیا اور مشہور ترک عاکف ایرصوئے کے کلام کا بھی ترجمہ کرکے اسے اُردو داں طبقے میں متعارف کرایا۔یہ کتاب 1991ء میں اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد کی طرف سے شائع ہوئی۔اس کتاب میں لگ بھگ ڈیڑھ سو منظومات کا اُردو ترجمہ اور یونس ایمرے کی شخصیت پر دو ایک مضامین شامل ہیں۔اُردو میں ان دوکتابوں کے علاوہ تیسری کتاب راقم کی نظر سے نہیں گزری۔تاہم جب وزیر اعظم عمران خان نےیونس ایمرے کاتذکرہ کیاتو کچھ اخبارات و رسائل میں یونس ایمرے پر چند کالم شائع ضرور ہوئے۔مولانا روم کی شخصیت،شاعری اور افکار و نظریات پر تو اُردو زبان میں کثیر تعداد میں کتب دستیاب ہیں لیکن حیرت اس امر پرہے کہ یونس ایمرے اُردو زبان سے کس طرح نظر انداز ہو گئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات کے نصاب میں عالمی ادب کے مضمون کے انگریزی اور اُردو نصاب کے مطالعات میں یونس ایمرے کو بھی شامل کیا جائے۔
دِل چسپ بات یہ ہے کہ انگریزی زبان میں یونس ایمرے کی شخصیت پر قابل قدر کام ہوا ہے۔یونس ایمرے کے کلام کے انگریزی تراجم کثیر تعداد میں دستیاب ہیں۔یونس ایمرے کے فکر و فلسفہ کےحوالےسے بھی خاصی کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئیں۔ان میں سے چند قابل ذکر درج ذیل ہیں:
1- The City of Heart, Suha Faiz, Great Britian, Element Books, Shhaftesbury, 1992.
2- The Poetry of Yunus Emre: A Turkish Poet, Grace Martin Smith, University of California, 1993.
3- The Drop That Becomes The Sea,Kabir Helminski & Refik Alan,Threshold Books,welmot,1989
4- Yunus Emre`s Ghazals, Translation & Introduction, Paul Smith,Createspace Independent Publishing Platform, 2018
5- Yunus Emre:Life & Poems,Paul Smith,Translation & Introduction,Createspace Independent Publications, 2014
6- Sufi Flights: Poems of Yunus Emre, Judith Reynolds Brown, 2010
7- Journey to The Beloved, Sufi Poems of Yunus Emre, Ersin Baki,Kopernik, Turkey,2018
8- Selected Poems of Divan of Yunus Emre, Profil Yayincilik, Istanbul,2013
9- Yunus Emre:Selected Poems,Tallat Saeet Halman, Minstery of Cultutre & Tourism,Ankra,1988
10- Yunus Emre and His Mystical Poetry,Tallat Saeet Halman,Indian University,1991
ترکی زبان میں عبد الباقی گلپنارلی،فاروق تیمورتاش اور مصطفیٰ تاتشی،ترگت دردران نے یونس ایمرے کی شخصیت اور فن کو اپنی تحقیق وتنقید کاموضوع بنایا ہے۔یہی نہیں، یونس ایمرے کی شخصیت اور افکار کو محمد بوزداغ نے تخلیقی رنگ و آہنگ کے ساتھ "یونس ایمرے :محبت کا سفر"( Yunus Emre: AşkınYolculuğu) کے نام سے ڈرامائی تشکیل دی۔اس ڈراما سریل کی نشریات کا آغاز ترکی کے سرکاری چینل"ٹی آر ٹی 1"(TRT 1) پر 18 جون 2015ء کو ہوا۔افغانی ٹی وی چینل "شمشاد ٹی وی" (Shamshad TV) پر اس ڈراما سریل کی پشتو ڈبنگ بھی نشر کی جا رہی ہے۔
ترک شاعری کی روایت میں یونس ایمرے کا نام سرفہرست ہے۔ان کا کلام گہری فکر، معنوی جواہر اور فنی خوبیوں سے مملو ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سات صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان کے گیت اور نظمیں ترک عوام کی زبانوں پر آج بھی جاری و ساری ہیں گویا یونس ایمرے ترکوں کے ذہنوں ہی میں نہیں زبانوں پر بھی زندہ ہیں۔آفاقی ادب زمان ومکان کی حدود و قیود سے ماوراہوتا ہے۔ہیومر، ملٹن، شیکسپیئر، سعدی، حافظ، رومی، خسرو، غالب،میر اور اقبال وہ شاعر ہیں جن کی تخلیقی معنویت وقت کی میزان پر پورا اُترتی ہے۔یونس ایمرے کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہے کہ اس کے موضوعات ہی آفاقی نہیں بل کہ جس طرح اُنھوں نے ان موضوعات کو فن کے سانچے میں ڈھالا ہے،وہ بھی آفاقی شاعروں کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔
عشق و محبت اور انسان دوستی کا پیغام لیے ان کا کلام آج بھی ہمارے دِلوں کے تاروں کو مُرتعش کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یونس ایمرے ترک قوم کی انسان دوست روایت کاصحیح معنوں میں نمایندہ شاعر ہے۔وہ تمام نسل انسانی کو امن،دوستی اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔اس نے رنگ و نسل،قومیت اور لسانی بنیادوں پر اختلافات کی مذمت کی اور انسانوں کو امن و آشتی اور پیار ومحبت سے رہنے کا درس دیااورنفرتوں اور عداوتوں کو مٹانے اور اچھی زندگی گزارنے کی تلقین کی کہ یہ پیغمبروں کا شیوہ ہے اور عظیم شخصیات اپنی فکری قوت اسی سرچشمے سے حاصل کرتی ہیں۔
نفرت میری واحد دشمن
ساری دنیا میرا نشیمن
٭
میں آیا نہیں بہر جنگ و عداوت
مرا مقصدِ زندگی ہے محبت
٭
دارِ فانی میں اچھی گزارو حیات
یاں ہمیشہ کسی کو بھی رہنا نہیں
٭
اگر دل دکھایا ہے تو نے کسی کا
تو بے کار ہیں تیرے صوم و صلوٰۃ
٭
آو باہم کریں دائمی دوستی
تاکہ آسان ہو جائے یہ زندگی
آو عاشق بنیں اور معشوق بھی
کیسی رنجش،کسی کی نہیں یہ زمیں
زیر نظر کتاب اُردو میں یونس ایمرے کی شخصیت اور فکر و فلسفہ کو متعارف کروانے کی اوّلین کوشش تو نہیں،البتہ یونس ایمرے کی شخصیت، شاعری اور کارناموں کو مربوط ومفٗصّل انداز میں پیش کرنے کی اوّلین کوشش ضرور کہی جاسکتی ہے۔کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاہے:
1-حِصّہ اول: یونس ایمرے:احوال و آثار
2-حِصّہ دوم: ایمرے شناسی:متفرق مضامین
3-حِصّہ سوم:انتخاب ِکلام (انگریزی و اُردو تراجم)
حِصّہ اوّل کے مباحث حسب ِ ذیل ہیں:
1-عہدِ یونس پر ایک طائرانہ نظر
2- یونس ایمرے :سوانحی خاکہ
3-یونس ایمرے کا شعری اثاثہ
4-یونس ایمرے :فکر و فن
5-یونس ایمرے کی شاعری: عالمی تناظر میں
حِصّہ دوم متفرق مضامین پرمشتمل ہے۔یہ مضامین انگریزی تحریروں کےتراجم پرمشتمل ہیں۔ان مضامین میں ایک مضمون معروف ترک سیاست دان اور ادیب نامک کمال زیبک کا تحریر کردہ ہے، ایک مضمون معروف ترک ادیب اور سلسلہ مولویہ کے درویش بزرگ کبیر حلے مینسکی کے زائیدہ فکر سے ہے اور ایک مقالہ این میری شمل کا قلم بند کیا ہوا ہے۔این میری شمل کے مقالے میں بہت سی غیرمتعلقہ تفصیلات تھیں جنھیں ترجمہ میں شامل نہیں کیا گیا۔اِس ترجمے کوترجمہ سے زیادہ ترجمانی کی کوشش سمجھا جائے۔اس مضمون کا ترجمہ کرتے ہوئے عبارت سے زیادہ مفہوم کو مقدم رکھا گیا ہے ۔
حِصّہ سوم یونس ایمرے کے منتخب کلام کے انگریزی اور اُردو تراجم پر مشتمل ہے۔اس حِصّے میں لگ بھگ سو نظموں کے تراجم شامل ہیں جن میں کچھ جزوی نمایندگی کرتے ہیں اور کچھ مکمل۔اُردو تراجم ڈاکٹر نثار احمد اَسرار اور احسن علی خان کی کوشش و کاوش کا نتیجہ ہیں، جب کہ انگریزی تراجم درج ذیل کتابوں سے ماخوذہے:
1- The City of Heart, Suha Faiz, Published in Geat Britian, Element Books, Shhaftesbury, 1992.
2- The Poetry of Yunus Emre: A Turkish Poet, Grace Martin Smith, Published by University of California, 1993.
3- The Drop That Becomes The Sea,Kabir Helminski & Refik Alan,Threshold Books,welmot,1989
4- Yunus Emre:Selected Poems, Tallat Saeet Halman, Minstery of Cultutre & Tourism,Ankra,1988
شامل کتاب منظومات کے ترکی متن کی پہلی پہلی سطر کا حوالہ کتاب کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے تاکہ متعلقہ نظم یا غزل کو یونس ایمرے کے دیوان میں تلاش کرنے میں آسانی رہے۔
کتاب کےآغاز میں یونس ایمرے کی شخصیت اور عہد سے متعلق کچھ تصاویرشائع کی گئی ہیں،جو یقیناً قارئین کے لیے دلچسپی کی حامل ہوں گی۔مزید یہ کہ یونس ایمرے کے دیوان کی مختلف اشاعتوں کی کچھ عکسی نقول بھی شامل کتاب کی گئی ہیں۔کتاب کی تیاری و تکمیل میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے،ان کا اندراج کتابیات کے ضمن میں کردیا گیاہے۔کتاب کی تیاری میں زیادہ استفادہ انگریزی کتب سے کیا گیا ہے، تاہم مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں ترکی ماخذات سے استفادہ نہیں کر سکا۔اِس معاملےمیں مجھے بھی امیر خسرو کا ہم زبان سمجھیے۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
اگر میں یونس ایمرے کا پیغام قارئین تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تو سمجھوں گا کہ میری محنت اکارت نہیں گئی۔اس سے زیادہ کا مجھے دعویٰ نہیں۔یہ پہلی کوشش ہے اور کوتاہیاں اور خامیاں توابتدائی کوشش کے ساتھ اکثر جڑی ہی ہوتی ہیں۔بشرطِ زندگی یونس ایمرے کے فکر و فلسفہ پر مستقبل میں ایک مفصَّل اور جامع کتاب پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
اپنے بھتیجے احمد اویس کا شکر گزار ہوں۔اس نے کتاب کی تیاری میں بہت مدد کی۔اس کےعلاوہ اپنے بھائی سلیم الٰہی طالب کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے کتاب کا خوب صورت سرِ ورق تیار کیا۔میری کامیابیوں میں میرے اساتذہ ڈاکٹر وحید الرحمان خان،ڈاکٹر سلمان بھٹی،ڈاکٹر نبیل احمد نبیل،ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ اور ڈاکٹر ابرار عبد السلام کاہمیشہ نمایاں ہاتھ رہا ہے۔ بک کارنر جہلم کے رُوح ِرواں اَمر شاہد کا بھی ممنون و مشکورہوں بلاشبہ یہ کتاب انھی کی تحریک پر تیار کی گئی۔ اللہ تعالیٰ سے ان سب کےلیے خیر کا طالب ہوں۔خدا ہم سب کاحامی و ناصر ہو۔آمین!