Urdu Adab Ki Tashkeel-e-Jadeed
By: Nasir Abbas Nayyar
-
Rs 1,800.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
ہ کتاب پہلی بار ۲۰۱۶ء میں شایع ہوئی تھی۔ ان سات برسوں میں اس کتاب کے مصنف کا قلم رواں رہا ہے۔ اس کتاب کے مسائل و موضوعات کو آگےبڑھانے کی کوشش بھی کی گئی اور جہاں محسوس ہوا کہ کچھ مسائل پوری طرح زیر بحث نہیں آسکے تھے، ان پر مزید بحث کی سعی بھی کی گئی۔ ایک اعتبار سے اس مصنف کی ہر نئی کتاب کا بیج، اس کی پہلی کتاب ہی میں موجود ہے۔اس کے قلم سے نکلیں سب کتابیں، ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں یا ایک مسلسل کہانی کے واقعات ہیں۔ زیر نظر کتاب میں جدید اردوادب کی تشکیل کی کہانی کے واقعات کو ترتیب دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کہانی کے زمان و مکاں،انیسویں صدی کے اواخرسے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے اوائلی برس اور نو آبادیاتی وپس نوآبادیاتی ہندوستان تھے۔کتاب میں جدید ادب کی کہانی کے کبیری کرداروں کے اعمال(یعنی works) اور ا ن اعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیاتھا؛وہ اثرات جو ادب کے موضوع و مواد کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب،تکنیک اور جمالیات پر پڑے،نیز جنھوں نے نئی ادبی اور قومی بحثوں کو جنم دیا۔یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کیسےاردو کے جدید ادب میںمتنوع و کثیر عناصر شامل ہوئے، کیسے یہ ادب،اپنی کلاسیکی وحشت و آزادی اور ایک نوع کی مابعد الطبیعیات سے نکل کر قومیت ، سماجیت اور نفسی سماجیت کے نئے مگر پیچیدہ سوال سے مسلسل دوچار رہا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ادب معاصر سیاست میں دخیل ہوا اور اس نے بہت کچھ بویا ،اور بہت کچھ کاٹا ؛کیسے اردو ادب میں استعمار کے سلسلے میں مزاحمت و موافقت کے ساتھ ساتھ متبادل بیانیوں کی تخلیق کی کوشش کی گئی اورکیسے مغربی کینن اور جدیدکینن میں فرق کیا گیا اور کیوں کر مقامی کینن کی بازیافت کی مساعی ہوئیں؟ ان سب مسائل کا احاطہ، اس کتاب میں اوراسی مصنف کی بعد کی کتابوں خصوصاً جدیدیت اور نوآبادیات(مطبوعہ اوکسفرڈ،۲۰۲۱ء )میں کرنے کی کوشش کی گئی۔خدا کا شکر ہے کہ یہ مساعی رائیگاں نہیں گئیں۔کئی بار نہایت اخلاص اور پوری محنت سے کی گئی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔آدمی اپنے معاصرین سے لڑ جھگڑ سکتا ہے، تاریخ اور زمانے سے نہیں
ہ کتاب پہلی بار ۲۰۱۶ء میں شایع ہوئی تھی۔ ان سات برسوں میں اس کتاب کے مصنف کا قلم رواں رہا ہے۔ اس کتاب کے مسائل و موضوعات کو آگےبڑھانے کی کوشش بھی کی گئی اور جہاں محسوس ہوا کہ کچھ مسائل پوری طرح زیر بحث نہیں آسکے تھے، ان پر مزید بحث کی سعی بھی کی گئی۔ ایک اعتبار سے اس مصنف کی ہر نئی کتاب کا بیج، اس کی پہلی کتاب ہی میں موجود ہے۔اس کے قلم سے نکلیں سب کتابیں، ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں یا ایک مسلسل کہانی کے واقعات ہیں۔ زیر نظر کتاب میں جدید اردوادب کی تشکیل کی کہانی کے واقعات کو ترتیب دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کہانی کے زمان و مکاں،انیسویں صدی کے اواخرسے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے اوائلی برس اور نو آبادیاتی وپس نوآبادیاتی ہندوستان تھے۔کتاب میں جدید ادب کی کہانی کے کبیری کرداروں کے اعمال(یعنی works) اور ا ن اعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیاتھا؛وہ اثرات جو ادب کے موضوع و مواد کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب،تکنیک اور جمالیات پر پڑے،نیز جنھوں نے نئی ادبی اور قومی بحثوں کو جنم دیا۔یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کیسےاردو کے جدید ادب میںمتنوع و کثیر عناصر شامل ہوئے، کیسے یہ ادب،اپنی کلاسیکی وحشت و آزادی اور ایک نوع کی مابعد الطبیعیات سے نکل کر قومیت ، سماجیت اور نفسی سماجیت کے نئے مگر پیچیدہ سوال سے مسلسل دوچار رہا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ادب معاصر سیاست میں دخیل ہوا اور اس نے بہت کچھ بویا ،اور بہت کچھ کاٹا ؛کیسے اردو ادب میں استعمار کے سلسلے میں مزاحمت و موافقت کے ساتھ ساتھ متبادل بیانیوں کی تخلیق کی کوشش کی گئی اورکیسے مغربی کینن اور جدیدکینن میں فرق کیا گیا اور کیوں کر مقامی کینن کی بازیافت کی مساعی ہوئیں؟ ان سب مسائل کا احاطہ، اس کتاب میں اوراسی مصنف کی بعد کی کتابوں خصوصاً جدیدیت اور نوآبادیات(مطبوعہ اوکسفرڈ،۲۰۲۱ء )میں کرنے کی کوشش کی گئی۔خدا کا شکر ہے کہ یہ مساعی رائیگاں نہیں گئیں۔کئی بار نہایت اخلاص اور پوری محنت سے کی گئی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔آدمی اپنے معاصرین سے لڑ جھگڑ سکتا ہے، تاریخ اور زمانے سے نہیں