ULTA DARAKHT
By: Krishan Chander
-
Rs 700.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
’’اُلٹا درخت‘‘ کرشن چندر کا شاہکار Fantasy ناول ہے جس میں مختلف النوع موضوعات کی شمولیت نے بڑی پہلوداری پیدا کر دی ہے۔ ناول میں سائنسی معلومات اور انوکھی مہمّات کا تانا بانا نہایت خوبصورتی کے ساتھ بُنا گیا ہے۔ اس داستان میں دیو بھی ہیں، جادوگر بھی ہیں اور خضر نُما رحم دل بوڑھا بھی ہے۔ سلیمانی ٹوپی اور اُڑنے والی چھڑی بھی ہے اور ساتھ ہی دورِ جدید کے پیچیدہ سیاسی اور سماجی مسائل کو بھی طنزیہ اسلوب اور تمثیلی پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’اُلٹا درخت‘‘ میں جادوگر الیکشن بھی لڑتے ہیں اور فلم ڈائریکٹر اس طلسماتی کارخانے میں اُلّو بنا دیئے جاتے ہیں۔ اس عجیب و غریب داستان میں بچّوں کی دلچسپی کے جملہ سامان موجود ہیں۔ ناول سر تا سر تخیلاتی ہے لیکن کرشن چندر کے بالغ سیاسی اور سماجی شعور نے اس Fantasy کو بلند پایہ طنزیہ تمثیل بنا دیا ہے اور ’’اُلٹا درخت‘‘ کا ہر تخیلی پیکر ایک عمیق رمزیت اور ہر واقعہ گہری معنویت کا حامل بن گیا ہے۔ کرشن چندر نے تحیّر، تجسّس اور سسپنس کی فضا اپنے اس ماحول میں از اوّل تا آخر ایسی کامیابی کے ساتھ برقرار رکھی ہے کہ کوئی بھی ذہین بچّہ اسے ختم کیے بغیر ہاتھ سے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو گا۔ بیج کے تین دانوں کے عوض گائے کو بیچ دینا، دو بیجوں کا کوّئوں کی نذر ہو جانا، ایک بیج سے اُلٹے درخت کا اُگنا، ایسے سنسنی خیز اور تحیرانگیز نکات ہیں کہ بچّے ان کا سبب اور انجام جاننے کے لیے بےقرار ہو جاتے ہیں۔ سانپوں کے شہر میں داخلے کی عجیب شرط کہ جب تک دروازہ نہ کھل جائے پلکیں نہ جھپکنے پائیں اور مارگزیدہ لوگوں کی لاشوں کا انتہائی پُراسرار طریقے سے غائب ہو جانا، یوسف کی موت کے بعد اُسے زندہ کرنے کی ترکیب، سونے کے آدمیوں پر سادہ پانی چھڑک کر انھیں دوبارہ انسان کی ہیئت میں لانا وغیرہ متعدد واقعات سے ناول مزین ہے اور کرشن چندر نے پوری داستان میں سسپنس کو برقرار رکھنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر خوشحال زیدی
’’کرشن چندر کے اس ناول ’’اُلٹا درخت‘‘ کو بچّوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ رُوس میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور وہاں اس کی فلم بھی بن چکی ہے۔ اس ناول کو دلچسپ بنانے کے لیے کرشن چندر نے ایک خیالی دُنیا کا رنگ بھرا ہے، پُرانی داستانوں کی طرح ایک قصے سے دوسرا قصہ پیدا کرتے چلے گئے ہیں۔ اس ناول میں کردار نگاری کی عمدہ مثال ملتی ہے۔ کرشن چندر نے دلچسپ ناول لکھ کر بچّوں کی ناول نگاری کو خاصا آگے بڑھا دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمود الرحمٰن
’’اُلٹا درخت‘‘ کی زبان بہت سادہ ہے، اس کے جملوں میں ربط ہے۔ اسلوبِ بیان میں سادگی اور وقار ہے۔ واقعات خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں۔ بُرائیوں کو نیچا اور اچھائیوں کو بُلند اور فتح یاب دکھایا گیا ہے۔ کرشن چندر کا طرزِ تحریر انوکھا ہے اور انھیں زبان پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے موضوعِ خیال اور اسلوب میں ربط رکھا ہے جس سے دلچسپی کہیں بھی کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس میں تخیل بھی ہے اور معلومات کا خزینہ بھی، شعریت بھی ہے اور معنویت بھی، اشاریت بھی ہے اور طنز بھی اور تصوّر بھی ہے اور رمزیت بھی۔ ان کے قلم سے نثر بھی شعریت میں ڈھل کر نکلتی ہے۔‘‘
’’اُلٹا درخت‘‘ کرشن چندر کا شاہکار Fantasy ناول ہے جس میں مختلف النوع موضوعات کی شمولیت نے بڑی پہلوداری پیدا کر دی ہے۔ ناول میں سائنسی معلومات اور انوکھی مہمّات کا تانا بانا نہایت خوبصورتی کے ساتھ بُنا گیا ہے۔ اس داستان میں دیو بھی ہیں، جادوگر بھی ہیں اور خضر نُما رحم دل بوڑھا بھی ہے۔ سلیمانی ٹوپی اور اُڑنے والی چھڑی بھی ہے اور ساتھ ہی دورِ جدید کے پیچیدہ سیاسی اور سماجی مسائل کو بھی طنزیہ اسلوب اور تمثیلی پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’اُلٹا درخت‘‘ میں جادوگر الیکشن بھی لڑتے ہیں اور فلم ڈائریکٹر اس طلسماتی کارخانے میں اُلّو بنا دیئے جاتے ہیں۔ اس عجیب و غریب داستان میں بچّوں کی دلچسپی کے جملہ سامان موجود ہیں۔ ناول سر تا سر تخیلاتی ہے لیکن کرشن چندر کے بالغ سیاسی اور سماجی شعور نے اس Fantasy کو بلند پایہ طنزیہ تمثیل بنا دیا ہے اور ’’اُلٹا درخت‘‘ کا ہر تخیلی پیکر ایک عمیق رمزیت اور ہر واقعہ گہری معنویت کا حامل بن گیا ہے۔ کرشن چندر نے تحیّر، تجسّس اور سسپنس کی فضا اپنے اس ماحول میں از اوّل تا آخر ایسی کامیابی کے ساتھ برقرار رکھی ہے کہ کوئی بھی ذہین بچّہ اسے ختم کیے بغیر ہاتھ سے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو گا۔ بیج کے تین دانوں کے عوض گائے کو بیچ دینا، دو بیجوں کا کوّئوں کی نذر ہو جانا، ایک بیج سے اُلٹے درخت کا اُگنا، ایسے سنسنی خیز اور تحیرانگیز نکات ہیں کہ بچّے ان کا سبب اور انجام جاننے کے لیے بےقرار ہو جاتے ہیں۔ سانپوں کے شہر میں داخلے کی عجیب شرط کہ جب تک دروازہ نہ کھل جائے پلکیں نہ جھپکنے پائیں اور مارگزیدہ لوگوں کی لاشوں کا انتہائی پُراسرار طریقے سے غائب ہو جانا، یوسف کی موت کے بعد اُسے زندہ کرنے کی ترکیب، سونے کے آدمیوں پر سادہ پانی چھڑک کر انھیں دوبارہ انسان کی ہیئت میں لانا وغیرہ متعدد واقعات سے ناول مزین ہے اور کرشن چندر نے پوری داستان میں سسپنس کو برقرار رکھنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر خوشحال زیدی
’’کرشن چندر کے اس ناول ’’اُلٹا درخت‘‘ کو بچّوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ رُوس میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور وہاں اس کی فلم بھی بن چکی ہے۔ اس ناول کو دلچسپ بنانے کے لیے کرشن چندر نے ایک خیالی دُنیا کا رنگ بھرا ہے، پُرانی داستانوں کی طرح ایک قصے سے دوسرا قصہ پیدا کرتے چلے گئے ہیں۔ اس ناول میں کردار نگاری کی عمدہ مثال ملتی ہے۔ کرشن چندر نے دلچسپ ناول لکھ کر بچّوں کی ناول نگاری کو خاصا آگے بڑھا دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمود الرحمٰن
’’اُلٹا درخت‘‘ کی زبان بہت سادہ ہے، اس کے جملوں میں ربط ہے۔ اسلوبِ بیان میں سادگی اور وقار ہے۔ واقعات خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں۔ بُرائیوں کو نیچا اور اچھائیوں کو بُلند اور فتح یاب دکھایا گیا ہے۔ کرشن چندر کا طرزِ تحریر انوکھا ہے اور انھیں زبان پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے موضوعِ خیال اور اسلوب میں ربط رکھا ہے جس سے دلچسپی کہیں بھی کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس میں تخیل بھی ہے اور معلومات کا خزینہ بھی، شعریت بھی ہے اور معنویت بھی، اشاریت بھی ہے اور طنز بھی اور تصوّر بھی ہے اور رمزیت بھی۔ ان کے قلم سے نثر بھی شعریت میں ڈھل کر نکلتی ہے۔‘‘