PASE E PERDA
By: Zulfiqar ali cheema
-
Rs 420.00
- Rs 600.00
- 30%
You save Rs 180.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
بہت سے بہی خواہ یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ سنجیدہ موضو عات پر تین عدد کتابوں کے بعد اِس نوعیّت کی کتاب لانے کی آخر کیا وجہ بنی؟وجہ تو خیر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ ایک نہایت معقول وجہ تو شہاب الدین غوری کے مشیرِ اعلیٰ نے بتادی تھی۔ کہتے ہیں غوری صاحب کا ہندوستان پر حملے کا موڈ بنا تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ حملے کے حق میں کچھ مشیروں کے بیانات بھی لے لیے جائیں تا کہ سند رہے اور ناکامی کی صورت میں اگر کوئی مخالف اینکر سوال پوچھ لے تو مشیروں کے بیان دکھادیئے جائیں اور پھر وہی بیان اس کی کٹی ہوئی گردن کے ساتھ لٹکا بھی دیئے جائیں۔ چنانچہ سلطانِ معظّم نے کورکمیٹی کی میٹنگ طلب کرلی اور حملے کے بارے میں سب سے ان کی ’’بےلاگ‘‘ رائے پوچھی۔ سلطان کو مشیرِاعلیٰ کی جو دلیل سب سے وزنی محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ ’’ہندوستان پر حملہ کیے ہوئے کافی وقت ہوچکا ہے، لہٰذا اب ایک عدد حملہ کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘
حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والے خواتین و حضرات نے کئی بار باور کرایا کہ مہنگائی، کرونا کی دوبارہ چڑھائی اور نئے حکمرانوں کی راہنمائی نے اس بات کانہایت موثّر اہتمام کر رکھا ہے کہ عوام النّاس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار نہ ہونے پائے … اس لیے کچھ ایسی ہلکی پھلکی تحریریں لوگوں کو پڑھانے کی اشد ضرورت ہے کہ جس سے ان کی معیشت نہ سہی مسکراہٹ تو بحال ہو سکے۔
ویسے کئی بزرگوں نے راقم کو سمجھانے کی بھی کو شش کی کہ ’’دیکھو ! اس عمر میںکیوں عزّت گنوانے کا ارادہ کر بیٹھے ہو۔ جو کام پورے خاندان میں پہلے کسی نے نہیںکیا، تم کیوں کرنے چلے ہو۔ لوگوں میں تمھارا ایک سنجیدہ مزاج کے عملی آدمی کااچھا خاصاامیج بناہوا ہے اور مختلف ادارے تمھیں ایک معقول آدمی سمجھ کر تقریر کے لیے بھی بلالیتے ہیں، اب اِس عمر میں اپنا امیج کیوں مسخ کرنا چاہتے ہو۔اِس عمر میں توبڑے بڑے رند، سیاستدان، بیوروکریٹ، جج اور جرنیل کتابیں لکھ کر اپنا تاثّر ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر تم اپنا تاثّر خراب کرنے پر تُل گئے ہو۔ ظرافت کا میدان بڑا کٹھن ہے اس میں ہر کسی کے پائوں نہیں جمتے، یہاں پھسل جانے کا امکان زیادہ ہے۔‘‘
مگر اکسانے والے بھی کم نہیں تھے، جو مسلسل کہے جا رہے تھے کہ شگفتہ نویسی کی جانب تمھارا میلان فطری ہے۔ میدانِ ظرافت میں تمھارا رخشِ قلم خوب دوڑتا ہے۔ ایک کتاب اس نوعیت کی ضرور آنی چاہیے۔
اکسانے والوں میں خود شہنشاہِ ظرافت جناب مشتاق احمد یوسفی بھی شامل تھے جنھوں نے مجھے طنزو مزاح پر انگریزی کی ایک دو کتابیں بھی اس نصیحت کے ساتھ بھیجیں کہ ’’آپ طنز و مزاح لکھ سکتے ہیں، لہٰذا ضرور لکھیں۔‘‘ گو تاخیر سے سہی مگر یوسفی صاحب کے اکسانے اور کئی دوستوں کے ورغلانے کا نتیجہ بالآخر برآمد ہونا ہی تھا۔
یہ بھی طے تھا کہ کتاب ضخیم نہیں ہوگی اور اس میں صرف بیس کے قریب مضامین شامل کیے جائیں گے۔ کچھ مضامین پہلے شائع ہو چکے ہیں مگر کچھ تازہ اور غیرمطبوعہ ہیںاور ابھی تک کسی پریس سے ہم آغوش نہیںہوئے۔
اس کتاب کے لیے مضامین کا انتخاب کرلیا گیا تو پہلی تینوں کتابوں کے برعکس میں نے مکرّم ومحترم پروفیسر انور مسعود صاحب سے دیباچہ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جسے انھوں نے بکمالِ شفقت شرفِ قبولیت بخشا۔ تمام مضامین کا جائزہ لینے کے بعد نہ صرف دیباچہ تحریر کیا بلکہ کتاب کا نام بھی تجویز کردیا۔ ’پسِ پردہ‘ کہ ان کے خیال میں ان مضامین میں معاشرے کے بااثر اور مقتدر افراد کے پسِ پردہ چہروں اور سوچ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ میں پروفیسر انور مسعود صاحب کی شفقت اور عنایت پر ان کا بےحد سپاس گزار ہوں۔
کتاب میں منفرد اسلوب کے معروف شاعر، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ جناب اظہار الحق صاحب کا مختصر تبصرہ اور شعر و ادب کے رمز شناس اور ریٹائرڈ سول سرونٹ ظفر حسن رضا صاحب کا تعارفی مضمون بھی شامل ہے۔
محترم اظہارالحق صاحب کوچار مضامین (ٹوکرا ذرا بڑا سا ہو، تقریبِ رونمائی، ایس پی نامہ اور پیجاخود سنبھال لے گا) بھیجے گئے تھے، انھوں نے چاروں میں سے’’ ایس پی نامہ‘‘ کو سب سے زیادہ نمبر دیئے ہیں۔ ان کی مشفقانہ رائے پر میں ان کا بےحد شکرگزار ہوں۔
برادرم ظفر حسن رضا کئی مضامین کی نوک پلک درست کرنے کے علاوہ الفاظ اور فقروں میں ترمیم و اضافہ کرنے میں بھی مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ انھیں چھ مضامین بھیجے گئے تھے جن پر انھوں نے تفصیلی تبصرہ تحریر کیا ہے، انھوں نے بھیجے گئے مضامین میں سے ’’سابقہ پالیسی جاری رہے‘‘ کو بہترین تحریر قرار دیا ہے۔ میں ان کے مفید مشوروں اور تبصرے پر ان کا شکرگزار ہوں۔
کتاب کے لیے کیریکیچرز(Caricatures) بنانے پر میں اپنے دیرینہ دوست اور ملک کے نامور کارٹونسٹ جاوید اقبال صاحب کا تہِ دل سے شکرگزار ہوں۔
اِس بار بُک کارنر جہلم والے اَمرشاہدصاحب نے (جو اعلیٰ پائے کی کتابیں چھاپنے کے جذبے اور جنون سے سرشار ہیں) یہ کتاب چھاپنے کی خواہش کا اظہار کیا اور پھر بڑی محبّت سے شائع کی۔ کتاب کی تیاری اور تزئین و آرائش میں برادرم اَمرشاہد کو بہت محنت کرنا پڑی۔ میں اُن کا تہِ دل سے شُکر گزار ہوں۔
کتاب کی ایڈٹنگ کے لیے راشد حسین صاحب اور ٹائٹل کے لیے بدرالحسن صاحب بھی میرے شکریے کے مستحق ہیں۔
کتا ب آپ کے ہاتھوںمیں ہے، آپ کتاب کے ساتھ اور کتاب آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، یہ آپ کا،کتاب کا اور امر شاہد کامعاملہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ تینوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔
بہت سے بہی خواہ یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ سنجیدہ موضو عات پر تین عدد کتابوں کے بعد اِس نوعیّت کی کتاب لانے کی آخر کیا وجہ بنی؟وجہ تو خیر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ ایک نہایت معقول وجہ تو شہاب الدین غوری کے مشیرِ اعلیٰ نے بتادی تھی۔ کہتے ہیں غوری صاحب کا ہندوستان پر حملے کا موڈ بنا تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ حملے کے حق میں کچھ مشیروں کے بیانات بھی لے لیے جائیں تا کہ سند رہے اور ناکامی کی صورت میں اگر کوئی مخالف اینکر سوال پوچھ لے تو مشیروں کے بیان دکھادیئے جائیں اور پھر وہی بیان اس کی کٹی ہوئی گردن کے ساتھ لٹکا بھی دیئے جائیں۔ چنانچہ سلطانِ معظّم نے کورکمیٹی کی میٹنگ طلب کرلی اور حملے کے بارے میں سب سے ان کی ’’بےلاگ‘‘ رائے پوچھی۔ سلطان کو مشیرِاعلیٰ کی جو دلیل سب سے وزنی محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ ’’ہندوستان پر حملہ کیے ہوئے کافی وقت ہوچکا ہے، لہٰذا اب ایک عدد حملہ کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘
حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والے خواتین و حضرات نے کئی بار باور کرایا کہ مہنگائی، کرونا کی دوبارہ چڑھائی اور نئے حکمرانوں کی راہنمائی نے اس بات کانہایت موثّر اہتمام کر رکھا ہے کہ عوام النّاس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار نہ ہونے پائے … اس لیے کچھ ایسی ہلکی پھلکی تحریریں لوگوں کو پڑھانے کی اشد ضرورت ہے کہ جس سے ان کی معیشت نہ سہی مسکراہٹ تو بحال ہو سکے۔
ویسے کئی بزرگوں نے راقم کو سمجھانے کی بھی کو شش کی کہ ’’دیکھو ! اس عمر میںکیوں عزّت گنوانے کا ارادہ کر بیٹھے ہو۔ جو کام پورے خاندان میں پہلے کسی نے نہیںکیا، تم کیوں کرنے چلے ہو۔ لوگوں میں تمھارا ایک سنجیدہ مزاج کے عملی آدمی کااچھا خاصاامیج بناہوا ہے اور مختلف ادارے تمھیں ایک معقول آدمی سمجھ کر تقریر کے لیے بھی بلالیتے ہیں، اب اِس عمر میں اپنا امیج کیوں مسخ کرنا چاہتے ہو۔اِس عمر میں توبڑے بڑے رند، سیاستدان، بیوروکریٹ، جج اور جرنیل کتابیں لکھ کر اپنا تاثّر ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر تم اپنا تاثّر خراب کرنے پر تُل گئے ہو۔ ظرافت کا میدان بڑا کٹھن ہے اس میں ہر کسی کے پائوں نہیں جمتے، یہاں پھسل جانے کا امکان زیادہ ہے۔‘‘
مگر اکسانے والے بھی کم نہیں تھے، جو مسلسل کہے جا رہے تھے کہ شگفتہ نویسی کی جانب تمھارا میلان فطری ہے۔ میدانِ ظرافت میں تمھارا رخشِ قلم خوب دوڑتا ہے۔ ایک کتاب اس نوعیت کی ضرور آنی چاہیے۔
اکسانے والوں میں خود شہنشاہِ ظرافت جناب مشتاق احمد یوسفی بھی شامل تھے جنھوں نے مجھے طنزو مزاح پر انگریزی کی ایک دو کتابیں بھی اس نصیحت کے ساتھ بھیجیں کہ ’’آپ طنز و مزاح لکھ سکتے ہیں، لہٰذا ضرور لکھیں۔‘‘ گو تاخیر سے سہی مگر یوسفی صاحب کے اکسانے اور کئی دوستوں کے ورغلانے کا نتیجہ بالآخر برآمد ہونا ہی تھا۔
یہ بھی طے تھا کہ کتاب ضخیم نہیں ہوگی اور اس میں صرف بیس کے قریب مضامین شامل کیے جائیں گے۔ کچھ مضامین پہلے شائع ہو چکے ہیں مگر کچھ تازہ اور غیرمطبوعہ ہیںاور ابھی تک کسی پریس سے ہم آغوش نہیںہوئے۔
اس کتاب کے لیے مضامین کا انتخاب کرلیا گیا تو پہلی تینوں کتابوں کے برعکس میں نے مکرّم ومحترم پروفیسر انور مسعود صاحب سے دیباچہ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جسے انھوں نے بکمالِ شفقت شرفِ قبولیت بخشا۔ تمام مضامین کا جائزہ لینے کے بعد نہ صرف دیباچہ تحریر کیا بلکہ کتاب کا نام بھی تجویز کردیا۔ ’پسِ پردہ‘ کہ ان کے خیال میں ان مضامین میں معاشرے کے بااثر اور مقتدر افراد کے پسِ پردہ چہروں اور سوچ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ میں پروفیسر انور مسعود صاحب کی شفقت اور عنایت پر ان کا بےحد سپاس گزار ہوں۔
کتاب میں منفرد اسلوب کے معروف شاعر، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ جناب اظہار الحق صاحب کا مختصر تبصرہ اور شعر و ادب کے رمز شناس اور ریٹائرڈ سول سرونٹ ظفر حسن رضا صاحب کا تعارفی مضمون بھی شامل ہے۔
محترم اظہارالحق صاحب کوچار مضامین (ٹوکرا ذرا بڑا سا ہو، تقریبِ رونمائی، ایس پی نامہ اور پیجاخود سنبھال لے گا) بھیجے گئے تھے، انھوں نے چاروں میں سے’’ ایس پی نامہ‘‘ کو سب سے زیادہ نمبر دیئے ہیں۔ ان کی مشفقانہ رائے پر میں ان کا بےحد شکرگزار ہوں۔
برادرم ظفر حسن رضا کئی مضامین کی نوک پلک درست کرنے کے علاوہ الفاظ اور فقروں میں ترمیم و اضافہ کرنے میں بھی مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ انھیں چھ مضامین بھیجے گئے تھے جن پر انھوں نے تفصیلی تبصرہ تحریر کیا ہے، انھوں نے بھیجے گئے مضامین میں سے ’’سابقہ پالیسی جاری رہے‘‘ کو بہترین تحریر قرار دیا ہے۔ میں ان کے مفید مشوروں اور تبصرے پر ان کا شکرگزار ہوں۔
کتاب کے لیے کیریکیچرز(Caricatures) بنانے پر میں اپنے دیرینہ دوست اور ملک کے نامور کارٹونسٹ جاوید اقبال صاحب کا تہِ دل سے شکرگزار ہوں۔
اِس بار بُک کارنر جہلم والے اَمرشاہدصاحب نے (جو اعلیٰ پائے کی کتابیں چھاپنے کے جذبے اور جنون سے سرشار ہیں) یہ کتاب چھاپنے کی خواہش کا اظہار کیا اور پھر بڑی محبّت سے شائع کی۔ کتاب کی تیاری اور تزئین و آرائش میں برادرم اَمرشاہد کو بہت محنت کرنا پڑی۔ میں اُن کا تہِ دل سے شُکر گزار ہوں۔
کتاب کی ایڈٹنگ کے لیے راشد حسین صاحب اور ٹائٹل کے لیے بدرالحسن صاحب بھی میرے شکریے کے مستحق ہیں۔
کتا ب آپ کے ہاتھوںمیں ہے، آپ کتاب کے ساتھ اور کتاب آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، یہ آپ کا،کتاب کا اور امر شاہد کامعاملہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ تینوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔