KAMARI WALA
By: Ali Akbar Natiq
-
Rs 960.00
- Rs 1,200.00
- 20%
You save Rs 240.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
ناطق کے لیے اب یہ حکم لگانا مشکل ہے کہ اُن کی اگلی منزل کہاں تک جائے گی کہ ہربار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ اُن کے تمام کام میں تازگی ہے، روایت اور تاریخ کا شعور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔ جس طرح اُن کا شعر اور پھر فکشن میں کام ہے۔ اِس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی ہیں اور ناولسٹ بھی۔ اُن کےفکشن میں پنجاب کی سرزمین میں غیرمعمولی دلچسپی اُن کے بیان میں غیرمعمولی مہارت کا ثبوت دیتی ہے۔ ناطق کی نثر سے مکالمہ اور بیانیہ کے نامانوس گوشوں پر اُن کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ناطق کے فکشن کا قاری خود انسان اور فطرت کے پیچیدہ رشتوں، انسان اور انسان کے درمیان محبت اور آویزش کے نکات سے بہرہ اندوز ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ علی اکبر ناطق سے اُردو ادب جتنی بھی توقعات اور اُمیدیں وابستہ کرے، نامناسب نہ ہو گا۔ اِن کا سفر بہت طویل ہے، راہیں کشادہ اور منفعت سے بھری ہوئی ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی
علی اکبر ناطق کا فکشن حقیقت اور کہانی کے پیچیدہ پہلوؤں کو سامنے لے کر آتا ہے۔ وہ دیہات اور اُس کے کرداروں کی بازیافت کا آدمی ہے اور حقیقی طور پر سن آف سوئل ہے۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی طرح دیہات کا رومان پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے کرداروں کو حقیقت کی زندگی عطا کرتا ہے۔
انتظار حُسین
علی اکبر ناطق ایک عجیب سا لااُبالی نوجوان ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اگلے لمحے آپ کا دُشمن ہو جائے یا فوراً ہی آپ کو گلے لگا لے لیکن یہ طے ہے کہ افسانے، ناول یا شاعری میں اس کی صلاحیتیں بلاخیز ہیں۔ اس کا افسانوی مجموعہ ’’شاہ محمد کاٹانگہ‘‘ ایسا ہے کہ اُردو ادب کا ایک سراسر نیا رُوپ اس میں سواری کرتا نظر آتا ہے۔
مستنصر حُسین تارڑ
جب علی اکبر ناطق نے فون پر مجھ سے کہا، ’’اس کو جلدی پڑھنے کی کوشش کیجیے گا۔‘‘ تب میں خُوب ہنسی تھی۔ لیکن ہوا تو یہی، ایک دفعہ کتاب شروع کی تو اس ابتدائی مشکل کے ختم ہونے کے بعد میں نے ’’نولکھی کوٹھی‘‘ ناول کو پڑھنا شروع کیا تو آخری صفحے تک پڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ جیسے کوئی آنکھوں دیکھا قِصّہ تھا جس کی سچائی نے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے مجھ کو اُداس اور سنجیدہ چھوڑا۔ علی اکبر کی تحریر پڑھتے ہوئے آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
فہمیدہ ریاض
علی اکبر ناطق کے ’’نولکھی کوٹھی‘‘ نے مجھے ایسا جکڑا کہ ایک ہی نشست میں تقریباً ساڑھے چار سو صفحات کی یہ کتاب پڑھ گیا، بیچ میں کھانا وغیرہ کھایا ہو تو میں اس کی قسم نہیں دیتا۔ ناطق کے ناول نے مجھے حیران تو نہیں کیا کیونکہ وہ اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کی دھاک پہلے ہی بٹھا چکا تھا، البتہ پریشان ضرور کیا کہ ^
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی
ظفر اقبال
’’فقیر بستی میں تھا‘‘ پڑھتے ہوئے گمان تک نہیں ہوتا کہ ہم آزاد کو نہیں، علی اکبر ناطق کو پڑھ رہے ہیں۔ آزاد پر یہ کتاب پچھلے سو سال میں واحد کتاب ہے جو واقعی اپنے موضوع اور اسلوب کے حوالے سےپڑھنے کے قابل اور لائق تحسین ہے۔ ناطق نے مولانا محمد حسین آزاد کا قلم مستعار لے کر یہ کتاب لکھی ہے۔
احمد جاوید
علی اکبر ناطق دیہی زندگی کی ایسی منظرکشی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ تحریر پڑھتے جائیں، آنکھوں کے سامنے فلم چلتی جائے گی۔ ان کے پہلے ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ نے اُردو فکشن میں ان کے بلند مقام کا تعین کردیا ہے۔ ناطق ہمارے ہی دور کے نوجوان ہیں اس لیے ناول پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے کتنی خوبی سے انگریز سرکار کے نمائندوں کی ذہنیت، سکھ رعایا کی معاشرت اور مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ ناول کی نولکھی کوٹھی اوکاڑہ میں واقع ہے۔ اسی اوکاڑہ میں، جہاں علی اکبر ناطق نے جنم لیا۔
مبشر علی زیدی
جب ایک فن کار کمال کو پہنچتا ہے تو وہ جو فن پارہ تخلیق کرتا ہے وہ اس فن کار سے علیحدہ اپنا تشخص اختیار کر لیتا ہے۔ اس مقام پر فن کار اور فن پارہ دو لوگ ہو جاتے ہیں۔ فن پارے کے کردار آزاد ہو جاتے ہیں، ان کی بود و باش، مزاج اور شخصیت فن کار کی قید سے نکل جاتے ہیں۔ اس کی بستیاں اپنے فطری ارتقا سے متنوع اور منفرد ساخت اختیار کرتی ہیں، فن پارے کا ماحول اور اس کی ثقافت اس کی اپنی ہوتی ہے۔ اس منزل پر وہ فن کار کے بجائے ایک قاری، ایک ناظر، ایک تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں فن کار کرداروں کی فطرت اور مزاج کا تابع بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لطیف مقامِ تخلیق تک خوش نصیب مہا فن کار ہی پہنچ پاتے ہیں۔ وہ مقام جہاں تخلیق کار چھو کر مٹی کے باوے زندہ کر دے، سیاہ و سفید الفاظ میں بکھری دُنیا کو رنگین گُل و گُل زار کر دے، اوراق میں لپٹی خاموشی کو زبان دے دے اور قاری کو ایک جہانِ رنگ و بُو کے بیچ لا کھڑا کرے، اس مقام پر گاہے تخلیق کار کی ذات کا پَرتو تخلیق پر پڑتا ہے اور گاہے تخلیق کا رنگ خالقِ فن پر اُترتا ہے، البتہ گاہے گاہے، کہ یہ دو مختلف لوگ ہوتے ہیں۔ علی اکبر ناطق کے تخلیق وفور کے سرکش، سر پٹکتے، اُچھلتے، چھینٹیں اُڑاتے دریا نے ’’کماری والا‘‘ کی تخلیق کے بعد ایک پُرسکون، لامتناہی، گہرے، بھید بھرے سمندر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس ناول نے اسے اُردو ادب کے ان چند اعلیٰ ادیبوں میں شامل کر دیا ہے جو مذکورہ لطیف مقامِ کمال تک جاتی راہ کے قافلے کے مسافر ہیں، وہی مقام جہاں فن پارہ فن کار کی قید سے آزاد ہو کر ضوفشاں ستارہ بن جاتا ہے۔
عرفان جاوید
ناطق کے لیے اب یہ حکم لگانا مشکل ہے کہ اُن کی اگلی منزل کہاں تک جائے گی کہ ہربار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ اُن کے تمام کام میں تازگی ہے، روایت اور تاریخ کا شعور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔ جس طرح اُن کا شعر اور پھر فکشن میں کام ہے۔ اِس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ وہ شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی ہیں اور ناولسٹ بھی۔ اُن کےفکشن میں پنجاب کی سرزمین میں غیرمعمولی دلچسپی اُن کے بیان میں غیرمعمولی مہارت کا ثبوت دیتی ہے۔ ناطق کی نثر سے مکالمہ اور بیانیہ کے نامانوس گوشوں پر اُن کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ناطق کے فکشن کا قاری خود انسان اور فطرت کے پیچیدہ رشتوں، انسان اور انسان کے درمیان محبت اور آویزش کے نکات سے بہرہ اندوز ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ علی اکبر ناطق سے اُردو ادب جتنی بھی توقعات اور اُمیدیں وابستہ کرے، نامناسب نہ ہو گا۔ اِن کا سفر بہت طویل ہے، راہیں کشادہ اور منفعت سے بھری ہوئی ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی
علی اکبر ناطق کا فکشن حقیقت اور کہانی کے پیچیدہ پہلوؤں کو سامنے لے کر آتا ہے۔ وہ دیہات اور اُس کے کرداروں کی بازیافت کا آدمی ہے اور حقیقی طور پر سن آف سوئل ہے۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی طرح دیہات کا رومان پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے کرداروں کو حقیقت کی زندگی عطا کرتا ہے۔
انتظار حُسین
علی اکبر ناطق ایک عجیب سا لااُبالی نوجوان ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اگلے لمحے آپ کا دُشمن ہو جائے یا فوراً ہی آپ کو گلے لگا لے لیکن یہ طے ہے کہ افسانے، ناول یا شاعری میں اس کی صلاحیتیں بلاخیز ہیں۔ اس کا افسانوی مجموعہ ’’شاہ محمد کاٹانگہ‘‘ ایسا ہے کہ اُردو ادب کا ایک سراسر نیا رُوپ اس میں سواری کرتا نظر آتا ہے۔
مستنصر حُسین تارڑ
جب علی اکبر ناطق نے فون پر مجھ سے کہا، ’’اس کو جلدی پڑھنے کی کوشش کیجیے گا۔‘‘ تب میں خُوب ہنسی تھی۔ لیکن ہوا تو یہی، ایک دفعہ کتاب شروع کی تو اس ابتدائی مشکل کے ختم ہونے کے بعد میں نے ’’نولکھی کوٹھی‘‘ ناول کو پڑھنا شروع کیا تو آخری صفحے تک پڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ جیسے کوئی آنکھوں دیکھا قِصّہ تھا جس کی سچائی نے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے مجھ کو اُداس اور سنجیدہ چھوڑا۔ علی اکبر کی تحریر پڑھتے ہوئے آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
فہمیدہ ریاض
علی اکبر ناطق کے ’’نولکھی کوٹھی‘‘ نے مجھے ایسا جکڑا کہ ایک ہی نشست میں تقریباً ساڑھے چار سو صفحات کی یہ کتاب پڑھ گیا، بیچ میں کھانا وغیرہ کھایا ہو تو میں اس کی قسم نہیں دیتا۔ ناطق کے ناول نے مجھے حیران تو نہیں کیا کیونکہ وہ اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کی دھاک پہلے ہی بٹھا چکا تھا، البتہ پریشان ضرور کیا کہ ^
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی
ظفر اقبال
’’فقیر بستی میں تھا‘‘ پڑھتے ہوئے گمان تک نہیں ہوتا کہ ہم آزاد کو نہیں، علی اکبر ناطق کو پڑھ رہے ہیں۔ آزاد پر یہ کتاب پچھلے سو سال میں واحد کتاب ہے جو واقعی اپنے موضوع اور اسلوب کے حوالے سےپڑھنے کے قابل اور لائق تحسین ہے۔ ناطق نے مولانا محمد حسین آزاد کا قلم مستعار لے کر یہ کتاب لکھی ہے۔
احمد جاوید
علی اکبر ناطق دیہی زندگی کی ایسی منظرکشی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ تحریر پڑھتے جائیں، آنکھوں کے سامنے فلم چلتی جائے گی۔ ان کے پہلے ناول ’’نولکھی کوٹھی‘‘ نے اُردو فکشن میں ان کے بلند مقام کا تعین کردیا ہے۔ ناطق ہمارے ہی دور کے نوجوان ہیں اس لیے ناول پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے کتنی خوبی سے انگریز سرکار کے نمائندوں کی ذہنیت، سکھ رعایا کی معاشرت اور مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ ناول کی نولکھی کوٹھی اوکاڑہ میں واقع ہے۔ اسی اوکاڑہ میں، جہاں علی اکبر ناطق نے جنم لیا۔
مبشر علی زیدی
جب ایک فن کار کمال کو پہنچتا ہے تو وہ جو فن پارہ تخلیق کرتا ہے وہ اس فن کار سے علیحدہ اپنا تشخص اختیار کر لیتا ہے۔ اس مقام پر فن کار اور فن پارہ دو لوگ ہو جاتے ہیں۔ فن پارے کے کردار آزاد ہو جاتے ہیں، ان کی بود و باش، مزاج اور شخصیت فن کار کی قید سے نکل جاتے ہیں۔ اس کی بستیاں اپنے فطری ارتقا سے متنوع اور منفرد ساخت اختیار کرتی ہیں، فن پارے کا ماحول اور اس کی ثقافت اس کی اپنی ہوتی ہے۔ اس منزل پر وہ فن کار کے بجائے ایک قاری، ایک ناظر، ایک تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں فن کار کرداروں کی فطرت اور مزاج کا تابع بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لطیف مقامِ تخلیق تک خوش نصیب مہا فن کار ہی پہنچ پاتے ہیں۔ وہ مقام جہاں تخلیق کار چھو کر مٹی کے باوے زندہ کر دے، سیاہ و سفید الفاظ میں بکھری دُنیا کو رنگین گُل و گُل زار کر دے، اوراق میں لپٹی خاموشی کو زبان دے دے اور قاری کو ایک جہانِ رنگ و بُو کے بیچ لا کھڑا کرے، اس مقام پر گاہے تخلیق کار کی ذات کا پَرتو تخلیق پر پڑتا ہے اور گاہے تخلیق کا رنگ خالقِ فن پر اُترتا ہے، البتہ گاہے گاہے، کہ یہ دو مختلف لوگ ہوتے ہیں۔ علی اکبر ناطق کے تخلیق وفور کے سرکش، سر پٹکتے، اُچھلتے، چھینٹیں اُڑاتے دریا نے ’’کماری والا‘‘ کی تخلیق کے بعد ایک پُرسکون، لامتناہی، گہرے، بھید بھرے سمندر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس ناول نے اسے اُردو ادب کے ان چند اعلیٰ ادیبوں میں شامل کر دیا ہے جو مذکورہ لطیف مقامِ کمال تک جاتی راہ کے قافلے کے مسافر ہیں، وہی مقام جہاں فن پارہ فن کار کی قید سے آزاد ہو کر ضوفشاں ستارہ بن جاتا ہے۔
عرفان جاوید