Aik Zamana Khatam Hoa Hai
By: Nasir Abbas Nayyar
-
Rs 585.00
- Rs 900.00
- 35%
You save Rs 315.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
" جسم کی اذیتیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ تسلیم کرانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ ہم صرف یہ تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ آدمی ہر کام کرسکتا ہے۔ ہر کام ۔ صرف اپنی مرضی سے نہیں، کسی کی مرضی سے کوئی بھی کام۔ اس کے ذریعے ہم لوگوں کو یہ یقین بھی دلاتے ہیں کہ ہم سب ایک ماورائی زنجیر سے بندھے ہیں۔ "(ہر آدمی ہر کام کرسکتا ہے
-------
"وہ جرمن شیفرڈ کے بعد شنائو تسرکے بہت مداح تھے۔کہتے تھے اگرکسی کو یہ دیکھنا ہو کہ کتے کی نوع اپنے حسن کی معراج کو پہنچ کر کیا ہوگی تو اسےشنائوتسرکو دیکھنا چاہیے۔ معراج پر پہنچ کر ہر چیز ایک تارک الدنیا شخص کی مانند ہوجاتی ہے، ہر چیز سے لاتعلق مگر بیگانہ نہیں،یہ ابا کا اپنا گھڑا ہوا فلسفہ تھا--تاہم انھیںشیفرڈ ہی سب سے زیادہ پسند تھا۔انھوں نےہی مجھے بتایا کہ انگریزوںنے دوسری عالمی جنگ میں ایک کمینگی یہ کی کہ اسے السیشن کا نام دے دیا۔ یہ کہتے ہوئے ابا جان نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ عالمی جنگوں میں جرمن کتوں کی خدمات کا اعتراف تو کجا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ جرمن شیفرڈنے ذہین، چالاک اور وفادار سپاہی کا کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے بھی جنگوں میں ان سے کام لیا مگر انھیں جرمنوں سے اتنی نفرت تھی کہ وہ اس کتے کا اصلی نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے اس کا نام بدل دیا"۔(خواب ِ سگاں)
-------
"تب میں کتاب کو ابدی حیات کا حامل سمجھتا تھا۔بعد میں ایک انگلش فلم دیکھی تو اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں۔ ایک شہر کے رہنے والے ، گھروں ،دکانوں ، کتب خانوں کی سب کتابیں لوٹ کر ان کے کچھ حصے چباتے ہیں، باقی حصوں کو جنگلی جانوروں کی طرح چیر پھاڑ کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جنھیں کمزور بوڑھے اور بچے بچی کھچی خوار ک کی مانند کھاتے ہیں۔ ایک شخص مقدس کتاب کا آخری نسخہ بچانے میںکامیاب ہوتا ہے۔ جانتے ہو، وہ کیا کرتا ہے؟ عجب الدولہ نے میری طرف دیکھا"۔ (قصہ کتابوں کے قبرستان کا)
-----
مصنف کے بارے میں: ڈاکٹر ناصر عباس نیر عہدِ حاضر کے ممتاز نقاد اور افسانہ نگار ہیں۔ وہ اردو میں مابعد نوآبادیاتی مطالعات کے بنیاد گزار ہیں۔ ان کی تنقیدی کتب میں ’جدیداور مابعد جدید تنقید‘، ’لسانیات اور تنقید‘، ’متن سیاق اورتناظر‘، ’مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات‘،’ مابعد نوآبادیات: اردو کے تناظر میں‘،’ ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری‘، ’اردو ادب کی تشکیل جدید‘(دو مرتبہ ایوارڈ یافتہ )، ’اُس کو اِک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں‘(ایوارڈ یافتہ)،نظم کیسے پڑھیں‘،’ جدیدیت اور نو آبادیات‘ اور دیگر کتب شامل ہیں۔ ’ایک زمانہ ختم ہوا ہے ‘،ان کے افسانوں کاچوتھا مجموعہ ہے ۔’ خاک کی مہک‘ ’ فرشتہ نہیں آیا‘ اور’ راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ ان کے پہلے تین مجموعوں کے نام ہیں۔ وہ اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہد ے پرفائز رہے ہیں اور آج کل اورینٹل کالج ،پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء اردو سے وابستہ ہیں
" جسم کی اذیتیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ تسلیم کرانے کے لیے دی جاتی ہیں۔ ہم صرف یہ تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ آدمی ہر کام کرسکتا ہے۔ ہر کام ۔ صرف اپنی مرضی سے نہیں، کسی کی مرضی سے کوئی بھی کام۔ اس کے ذریعے ہم لوگوں کو یہ یقین بھی دلاتے ہیں کہ ہم سب ایک ماورائی زنجیر سے بندھے ہیں۔ "(ہر آدمی ہر کام کرسکتا ہے
-------
"وہ جرمن شیفرڈ کے بعد شنائو تسرکے بہت مداح تھے۔کہتے تھے اگرکسی کو یہ دیکھنا ہو کہ کتے کی نوع اپنے حسن کی معراج کو پہنچ کر کیا ہوگی تو اسےشنائوتسرکو دیکھنا چاہیے۔ معراج پر پہنچ کر ہر چیز ایک تارک الدنیا شخص کی مانند ہوجاتی ہے، ہر چیز سے لاتعلق مگر بیگانہ نہیں،یہ ابا کا اپنا گھڑا ہوا فلسفہ تھا--تاہم انھیںشیفرڈ ہی سب سے زیادہ پسند تھا۔انھوں نےہی مجھے بتایا کہ انگریزوںنے دوسری عالمی جنگ میں ایک کمینگی یہ کی کہ اسے السیشن کا نام دے دیا۔ یہ کہتے ہوئے ابا جان نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ عالمی جنگوں میں جرمن کتوں کی خدمات کا اعتراف تو کجا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ جرمن شیفرڈنے ذہین، چالاک اور وفادار سپاہی کا کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے بھی جنگوں میں ان سے کام لیا مگر انھیں جرمنوں سے اتنی نفرت تھی کہ وہ اس کتے کا اصلی نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے اس کا نام بدل دیا"۔(خواب ِ سگاں)
-------
"تب میں کتاب کو ابدی حیات کا حامل سمجھتا تھا۔بعد میں ایک انگلش فلم دیکھی تو اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں۔ ایک شہر کے رہنے والے ، گھروں ،دکانوں ، کتب خانوں کی سب کتابیں لوٹ کر ان کے کچھ حصے چباتے ہیں، باقی حصوں کو جنگلی جانوروں کی طرح چیر پھاڑ کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جنھیں کمزور بوڑھے اور بچے بچی کھچی خوار ک کی مانند کھاتے ہیں۔ ایک شخص مقدس کتاب کا آخری نسخہ بچانے میںکامیاب ہوتا ہے۔ جانتے ہو، وہ کیا کرتا ہے؟ عجب الدولہ نے میری طرف دیکھا"۔ (قصہ کتابوں کے قبرستان کا)
-----
مصنف کے بارے میں: ڈاکٹر ناصر عباس نیر عہدِ حاضر کے ممتاز نقاد اور افسانہ نگار ہیں۔ وہ اردو میں مابعد نوآبادیاتی مطالعات کے بنیاد گزار ہیں۔ ان کی تنقیدی کتب میں ’جدیداور مابعد جدید تنقید‘، ’لسانیات اور تنقید‘، ’متن سیاق اورتناظر‘، ’مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات‘،’ مابعد نوآبادیات: اردو کے تناظر میں‘،’ ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری‘، ’اردو ادب کی تشکیل جدید‘(دو مرتبہ ایوارڈ یافتہ )، ’اُس کو اِک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں‘(ایوارڈ یافتہ)،نظم کیسے پڑھیں‘،’ جدیدیت اور نو آبادیات‘ اور دیگر کتب شامل ہیں۔ ’ایک زمانہ ختم ہوا ہے ‘،ان کے افسانوں کاچوتھا مجموعہ ہے ۔’ خاک کی مہک‘ ’ فرشتہ نہیں آیا‘ اور’ راکھ سے لکھی گئی کتاب‘ ان کے پہلے تین مجموعوں کے نام ہیں۔ وہ اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہد ے پرفائز رہے ہیں اور آج کل اورینٹل کالج ،پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء اردو سے وابستہ ہیں