Dozakhnama
By: Inaam Nadeem
-
Rs 1,350.00
- Rs 1,500.00
- 10%
You save Rs 150.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
" بیدل نے فردوس کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ جگہ ہی کیا جہاں دل کسی درد سے نہ تڑپے۔
ربیسنکر بال نے بجا طور پر غالب اور منٹو کا عالم عطف دوزخ کو قرار دیا ہے۔ دوزخ میں غالب اور منٹو ایک دوسرے کو اپنا اپنا افسانہ سنارہے ہیں جو دل بے دماغ کی گفتگو سے بھی نازک تر ہے۔ غالب اور منٹو کی زندگیوں کے وہ بہت سارے کردار جن کی کچھ جھلکیاں کبھی ہمیں ان کی تحریروں میں نظر آئی تھیں، ربیسنکر بال کے ناول میں ہم سے اور قریب آگئے ہیں۔ یہاں غالب کی امراو بیگم بھی ہیں اور اور ان کے والد بھی، کلوداروغہ بھی ہے اور بہادر شاہ ظفر بھی، ولیم فریزر بھی ہے اور نواب شمس الدین بھی۔ غالب کی ڈومنی بھی اور ایک محبوبہ شاعر ہ المتخلص بہ ' ترک' بھی۔ منٹو کی طرف دیکھیے تو کون ہے جو نہیں ہے۔لاہور اپنے کرشن چندر، بیدی، باری علیگ کے ساتھ، بمبے فلم انڈسٹری کا طلسمات ، صفیہ اور اسکے ساتھ عصمت جسے ربیسنکر بال نے تقریبا منٹو کی محبوبہ ثابت کر دیا ہے۔ جہاں غالب نے اپنی زندگی کی تصویر کو صوفیانہ حکایات سے رنگین بنایا ہے، یہاں تک کہ رومی کا ان سے ملاقات کے لیے دوزخ میں آنا تک بیان کیا ہے، منٹو نے ان افراد کو اپنی یاداشت کا حصہ بنایا ہے جنھوں نے اسے زندگی کے معانی سے آشنا کیا۔ ناول میں بنگالی مصنف نے غالب کے سفر کلکتہ کے بیان میں کمال فن سے ہمیں' نازنیں بتان خود آر' سے آگے دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
اپنی اپنی مشق فنا کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے غالب اور منٹو دونوں کی زندگیاں عبرت انگیز ہوگئی تھیں، مگر جانے دیجیے ، غالب تو اس سے زیادہ کی توقع رکھتے تھے اور منٹو کی لاپروائی کے لیے غالب کا یہ آفاقی مصرعہ ہی بہت تھا:
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
مصنف نے اس ناول کو منٹو کی تحریر کہا ہے جو کسی طرح اس کی دسترس میں آگئی تھی۔ یہ ناول منٹو کو ہی لکھنا چاہیے تھا، شاید منٹو جیسا خود آگاہ غالب کو ہم سے زیادہ سمجھ سکتا تھا، مگر منٹو بت تراش نہیں تھا اور اپنی بت شکنی کا تیشہ غالب اور اپنے آپ پر بھی برسانے سے نہ رکتا۔ دوزخ نامہ ان دو شخصیتوں کی زندگی کا مرقع ہے جو خود اپنے اپنے وقت میں' ہندوستان' (برصغیر پاک و ہند) قرار دیے جا سکتے ہیں۔ غالب اور منٹو اپنے اپنے عہد کی دانش کے عذاب سے باخبر تھے اور دونوں نے اسی لیے آشوب آگہی کے آگے خطِ ایاغ کھینچ لیا تھا۔
شاعر انعام ندیم نے دلسوزی سے دوزخ نامہ کو اردو میں منتقل کیا ہے اور ایسی خوش سلیقگی کے ساتھ کہ کہیں سے بھی ترجمہ کا شائبہ نہیں ہوتا۔"
" بیدل نے فردوس کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ جگہ ہی کیا جہاں دل کسی درد سے نہ تڑپے۔
ربیسنکر بال نے بجا طور پر غالب اور منٹو کا عالم عطف دوزخ کو قرار دیا ہے۔ دوزخ میں غالب اور منٹو ایک دوسرے کو اپنا اپنا افسانہ سنارہے ہیں جو دل بے دماغ کی گفتگو سے بھی نازک تر ہے۔ غالب اور منٹو کی زندگیوں کے وہ بہت سارے کردار جن کی کچھ جھلکیاں کبھی ہمیں ان کی تحریروں میں نظر آئی تھیں، ربیسنکر بال کے ناول میں ہم سے اور قریب آگئے ہیں۔ یہاں غالب کی امراو بیگم بھی ہیں اور اور ان کے والد بھی، کلوداروغہ بھی ہے اور بہادر شاہ ظفر بھی، ولیم فریزر بھی ہے اور نواب شمس الدین بھی۔ غالب کی ڈومنی بھی اور ایک محبوبہ شاعر ہ المتخلص بہ ' ترک' بھی۔ منٹو کی طرف دیکھیے تو کون ہے جو نہیں ہے۔لاہور اپنے کرشن چندر، بیدی، باری علیگ کے ساتھ، بمبے فلم انڈسٹری کا طلسمات ، صفیہ اور اسکے ساتھ عصمت جسے ربیسنکر بال نے تقریبا منٹو کی محبوبہ ثابت کر دیا ہے۔ جہاں غالب نے اپنی زندگی کی تصویر کو صوفیانہ حکایات سے رنگین بنایا ہے، یہاں تک کہ رومی کا ان سے ملاقات کے لیے دوزخ میں آنا تک بیان کیا ہے، منٹو نے ان افراد کو اپنی یاداشت کا حصہ بنایا ہے جنھوں نے اسے زندگی کے معانی سے آشنا کیا۔ ناول میں بنگالی مصنف نے غالب کے سفر کلکتہ کے بیان میں کمال فن سے ہمیں' نازنیں بتان خود آر' سے آگے دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
اپنی اپنی مشق فنا کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے غالب اور منٹو دونوں کی زندگیاں عبرت انگیز ہوگئی تھیں، مگر جانے دیجیے ، غالب تو اس سے زیادہ کی توقع رکھتے تھے اور منٹو کی لاپروائی کے لیے غالب کا یہ آفاقی مصرعہ ہی بہت تھا:
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
مصنف نے اس ناول کو منٹو کی تحریر کہا ہے جو کسی طرح اس کی دسترس میں آگئی تھی۔ یہ ناول منٹو کو ہی لکھنا چاہیے تھا، شاید منٹو جیسا خود آگاہ غالب کو ہم سے زیادہ سمجھ سکتا تھا، مگر منٹو بت تراش نہیں تھا اور اپنی بت شکنی کا تیشہ غالب اور اپنے آپ پر بھی برسانے سے نہ رکتا۔ دوزخ نامہ ان دو شخصیتوں کی زندگی کا مرقع ہے جو خود اپنے اپنے وقت میں' ہندوستان' (برصغیر پاک و ہند) قرار دیے جا سکتے ہیں۔ غالب اور منٹو اپنے اپنے عہد کی دانش کے عذاب سے باخبر تھے اور دونوں نے اسی لیے آشوب آگہی کے آگے خطِ ایاغ کھینچ لیا تھا۔
شاعر انعام ندیم نے دلسوزی سے دوزخ نامہ کو اردو میں منتقل کیا ہے اور ایسی خوش سلیقگی کے ساتھ کہ کہیں سے بھی ترجمہ کا شائبہ نہیں ہوتا۔"