FARSI ADAB KAY CHAND GOSHAY
By: Anwar Masood
-
Rs 315.00
- Rs 700.00
- 55%
You save Rs 385.00.
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
یاد رکھیے! اُردو ادب کو فارسی ادب کے حوالے کے بغیر نہ سمجھا جا سکتا ہے نہ اِس کی حیثیت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ فارسی سے ہمارا رابطہ صرف علمی سطح تک محدود نہیں بلکہ یہ رشتہ مذہبی، سماجی، ثقافتی، تمدنی اور تہذیبی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ فارسی کے ایسے نامور ادیبوں اور شاعروں کا تعارف ہے جن سے ہمارے ہاں شناسائی کم کم ہے۔ یہ چند مضامین عظیم فارسی ادب کی ایک جھلک ہے۔ اِن مضامین میں نہ صرف ان نامور ادیبوں کی تخلیقات کا تعارف ہے بلکہ اُن کی شخصیات، حالات اور مستقبل کے اِمکانات کا ذِکر بھی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف میرے فارسی اَدب کے مطالعے کا ماحصل ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے اُس ادبی ورثے کے درس کی حیثیت رکھتی ہے جو ہماری شناخت ہے مگر ہماری یادداشت سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اِس کتاب کو مشتاق احمدیُوسفی، ڈاکٹر جمیل جالبی، فتح محمد ملک، پروین شاکر اور احمد فراز جیسے مشاہیر نے پسند کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعتِ تازہ کے لیے میں ’’بک کارنر جہلم‘‘ کے تزئینی اہتمام کا شکرگُزار ہوں۔
انورمسعود
مزاحیہ شاعری کا سب سے کٹھن اور فیصلہ کن ٹیسٹ مشاعرہ سمجھا جاتا ہے۔ جن آنکھوں نے انور مسعود کو اندرون و بیرون ملک مشاعرے لوٹتے اور تقریباً سارا کلام سنانے کے بعد بھی مزید قطعات کی فرمائشوں کے جواب میں اپنے دلآویز انداز میں مسکراتے اور آداب کرتے دیکھا ہے، اُنھیں ان کے مزاح کی کاٹ، سادگی اور قبولِ عام کا کوئی اور ثبوت درکار نہیں۔ انور مسعود نے قطعہ کو ایک سانس کی ِصنف کہا ہے۔ اِس ایک پُرفسوں سانس میں انھوں نے طنز و ایجاز کے جو گُل کھلائے ہیں، وہ ان کے فن کا اعجاز ہے۔ سادگی اور شگفتگی ان کے قطعات کا جوہر اور دھیماپن اور شائستگی ان کے لہجے کی پہچان ہے۔ وہ تحریف، تضمین اور پیروڈی ایسی فن کارانہ مہارت سے کرتے ہیں کہ اصل کو بھی اپنا ہی کرشمۂ کلام بنا کر دکھا دیتے ہیں۔ ان کی نثری تصنیف ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ اپنے دل نشین انداز اور Readability (مطالعیت) کے اعتبار سے بےمثل ہے۔ اعلیٰ تنقید اور تدریس میں جو قدر مشترک ہے، وہ پڑھنے والے میں موضوع سے دلچسپی کو شیفتگی کی حد تک پہنچانے کا فریضہ ہے اور پروفیسر انور مسعود نے یہ بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔ ان موضوعات پر اس سے زیادہ دلکش، رواں اور شوق کو مہمیز کرنے والا تعارف میری نظر سے نہیں گزرا۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی فارسی پر نظر کرتا ہوں تو بےاختیار جی چاہتا ہے کہ اگر سِن و سال کا تفاوت بےجا درمیان میں حائل نہ ہوتا تو میں ایسے اُستاد کا شاگرد ہونا اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتا۔
مشتاق احمد یوسفی
پروفیسر انور مسعود کو پہلی بار میں نے دبئی کے اس عالمی مشاعرہ میں دیکھا اور سنا جو میری صدارت میں ہو رہا تھا۔ کلام سنا تو اچھا لگا۔ پڑھنے کا ایسا دلکش انداز کہ ہر لفظ سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ سامعین کی بےساختہ داد سے سارا پنڈال گونج اُٹھا اور واہ واہ سبحان اللہ کی داد سے چھتیں اڑ گئیں۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ گفتگو بھی لچھے دار کرتے ہیں۔ مسکراتا چہرہ اور چہرے پر اخلاص کی روشنی۔ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ موصوف صرف شاعر ہی نہیں صاحبِ علم بھی ہیں۔ وسیع المطالعہ، لفظوں کے پارکھ اور فارسی ادب کے استاد۔ فارسی ایسے بولتے ہیں جیسے شعر سنا رہے ہوں۔ آج دُنیا بھر میں ان کی مانگ ہے اور وہ مشاعروں کی جان ہیں۔ جدید و قدیم فارسی ادب پر ایسی نظر کہ کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ خوش مزاج، خوش نظر اور خوش فکر بھی۔ آپ جب یہ مضامین پڑھیں گے تو میرے ہم نوا ہو کر پروفیسر انور مسعود کے نقد و نظر کے قائل ہو جائیں گے اور میری طرح ان کو مشورہ دیں گے کہ حضرت شاعری بہت کر چکے، اب پوری سنجیدگی اور دلجمعی سے ایسے ہی مضامین اور لکھیے جیسے اس کتاب میں ہیں۔ شعر فارسی کی جیسی پرکھ آپ کو ہے ایسے اس دورِ نابکار میں کہاں؟ ان مضامین کو پڑھ کر ہمارا ذوقِ ادب نکھرتا اور پروان چڑھتا ہے اور فارسی زبان و ادب سے ہماری دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ فروغِ فرّخ زاد کے بارے میں، جس کی شاعری سے پہلی بار جدید صنعتی و شہری زندگی کا کرب فارسی شاعری کی آواز اور لَے میں شامل ہوا ہے، پروفیسر انور مسعود کا مضمون خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اسی طرح ناقدینِ سبکِ ہندی، میرزا علی اکبر دہخدا، عمر خیام، عشقی اور غنیمت کنجاہی ایسے مضامین ہیں جنھیں فارسی ادب کے شائقین نہایت دلچسپی سے پڑھیں گے۔ فاضل مصنّف کے دلچسپ اندازِ بیان اور تیکھی ناقدانہ نظر نے ساری کتاب میں ایک نئی رُوح پھونک دی ہے۔ میں اس مجموعے کی اشاعت پر پروفیسر انور مسعود کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی
فارسی اور اُردو کے باہمی روابط صدیوں پر محیط ہیں۔ اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں بےشمار فارسی لفظوں کی موجودگی ان گہرے تہذیبی و لسانی اثرات کی نشان دہی کرتی ہے جو یہ نوزائیدہ زبان اپنی پیدائش سے آج تک عہد بہ عہد، اس ترقّی یافتہ اور قدیم زبان سے قبول کرتی رہی ہے۔ اُردو نے فارسی ہی کی آغوش میں پرورش پائی اور اسی زبان کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا۔ ایک زمانہ تھا جب برصغیر میں فارسی کو شاہانِ وقت کی سرپرستی حاصل تھی، ان دنوں فارسی لکھنا اور بولنا بڑی عزت کی بات سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ فارسی زبان کو اگرچہ وہ قدر و منزلت تو حاصل نہیں رہی مگر پھر بھی بڑی مدّت تک اس زبان کا شعر و ادب یہاں کے صاحبانِ ذوق کی آنکھ کا سرمہ بنا رہا ہے۔ اب اس رجحان میں بھی بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔ آج کے پڑھے لکھے طبقے کی غالب اکثریت کا رجحانِ طبع مشرق سے زیادہ مغرب کی طرف ہے اور یوں وہ لحظہ بہ لحظہ اپنے منابع سے دُور ہوتا جا رہا ہے۔ انور مسعود کے یہ مضامین جو قدیم و جدید فارسی شعر و ادب کے بعض گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالتے ہیں، دراصل اسی قدیم رُوح کی باز آفرینی اور اپنے اصل کی طرف مراجعت کی تکمیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کام صرف وہی شخص کر سکتا تھا جو نہ صرف دونوں زبانوں کی تاریخ اور ان کے ادبی مزاج کا نکتہ شناس ہو بلکہ بحیثیتِ شاعر ان زبانوں کے شعر و ادب کے رموز کا عملی ادراک بھی رکھتا ہو۔ یہ مضامین چونکہ ایک شگفتہ اور دل پذیر اسلوب میں تمام کیے گئے ہیں، اس لیے مکمل ابلاغ کی کیفیت کے ساتھ قاری کو تا دیر متاثر کرنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر توصیف تبسّم
بےشک معاصر پنجابی ادب میں انور مسعود کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی کسی رسمی تعارف کا محتاج نہیں لیکن شاید بہت کم معاصرین اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ سوہنی کے دیس کا یہ مہینوال (بحوالہ اس کی مشہورِ زمانہ نظم انارکلی دی َمجھ) پنجابی میں نہیں بلکہ فارسی میں گولڈ میڈلسٹ ہے۔ اس کے فارسی کے ہم درس یہ بات کبھی فراموش نہیں کر سکتے کہ تقریباً ربع صدی پیشتر جب وہ ایم اے فارسی کا ممتاز ترین طالب علم تھا، آسمانِ فارسی پر ایک درخشندہ ستارہ بن کر نمودار ہوا اور اس کے زیرِ نظر مقالات کی چمک دمک نے اربابِ دانش اور اصحابِ بینش کی نظروں کو خیرہ کر دیا تھا۔فارسی زبان و ادب سے متعلّق اس مجموعہ مقالات کی طباعت و اشاعت اس پر قرض بھی تھی اور فرض بھی، سو اس نے اپنا یہ فرض نہایت عمدگی سے نبھایا اور یہ قرض بڑی خوش اسلوبی سے چکایا ہے۔میرے نزدیک اس کے یہ مقالات ایک ایسی رنگین کمان (Rainbow) ہے جس نے آسمانِ فارسی کا مکمّل احاطہ کر رکھا ہے اور اپنے خوش منظر رنگوں کے حسین امتزاج کی بنا پر فارسی زبان و ادب کے شائقین کے لیے سراپا دعوتِ نظاّرہ بلکہ جنّت نگاہ ہے۔ادبی چاشنی سے بھرپور اور علمی حُسن سے معمور ان مقالات پر مفصل تبصرے کا یہ محل نہیں۔ مختصر یہ کہ
ز پاے تا بسرش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست
یاد رکھیے! اُردو ادب کو فارسی ادب کے حوالے کے بغیر نہ سمجھا جا سکتا ہے نہ اِس کی حیثیت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ فارسی سے ہمارا رابطہ صرف علمی سطح تک محدود نہیں بلکہ یہ رشتہ مذہبی، سماجی، ثقافتی، تمدنی اور تہذیبی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ فارسی کے ایسے نامور ادیبوں اور شاعروں کا تعارف ہے جن سے ہمارے ہاں شناسائی کم کم ہے۔ یہ چند مضامین عظیم فارسی ادب کی ایک جھلک ہے۔ اِن مضامین میں نہ صرف ان نامور ادیبوں کی تخلیقات کا تعارف ہے بلکہ اُن کی شخصیات، حالات اور مستقبل کے اِمکانات کا ذِکر بھی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف میرے فارسی اَدب کے مطالعے کا ماحصل ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے اُس ادبی ورثے کے درس کی حیثیت رکھتی ہے جو ہماری شناخت ہے مگر ہماری یادداشت سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اِس کتاب کو مشتاق احمدیُوسفی، ڈاکٹر جمیل جالبی، فتح محمد ملک، پروین شاکر اور احمد فراز جیسے مشاہیر نے پسند کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعتِ تازہ کے لیے میں ’’بک کارنر جہلم‘‘ کے تزئینی اہتمام کا شکرگُزار ہوں۔
انورمسعود
مزاحیہ شاعری کا سب سے کٹھن اور فیصلہ کن ٹیسٹ مشاعرہ سمجھا جاتا ہے۔ جن آنکھوں نے انور مسعود کو اندرون و بیرون ملک مشاعرے لوٹتے اور تقریباً سارا کلام سنانے کے بعد بھی مزید قطعات کی فرمائشوں کے جواب میں اپنے دلآویز انداز میں مسکراتے اور آداب کرتے دیکھا ہے، اُنھیں ان کے مزاح کی کاٹ، سادگی اور قبولِ عام کا کوئی اور ثبوت درکار نہیں۔ انور مسعود نے قطعہ کو ایک سانس کی ِصنف کہا ہے۔ اِس ایک پُرفسوں سانس میں انھوں نے طنز و ایجاز کے جو گُل کھلائے ہیں، وہ ان کے فن کا اعجاز ہے۔ سادگی اور شگفتگی ان کے قطعات کا جوہر اور دھیماپن اور شائستگی ان کے لہجے کی پہچان ہے۔ وہ تحریف، تضمین اور پیروڈی ایسی فن کارانہ مہارت سے کرتے ہیں کہ اصل کو بھی اپنا ہی کرشمۂ کلام بنا کر دکھا دیتے ہیں۔ ان کی نثری تصنیف ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ اپنے دل نشین انداز اور Readability (مطالعیت) کے اعتبار سے بےمثل ہے۔ اعلیٰ تنقید اور تدریس میں جو قدر مشترک ہے، وہ پڑھنے والے میں موضوع سے دلچسپی کو شیفتگی کی حد تک پہنچانے کا فریضہ ہے اور پروفیسر انور مسعود نے یہ بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔ ان موضوعات پر اس سے زیادہ دلکش، رواں اور شوق کو مہمیز کرنے والا تعارف میری نظر سے نہیں گزرا۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی فارسی پر نظر کرتا ہوں تو بےاختیار جی چاہتا ہے کہ اگر سِن و سال کا تفاوت بےجا درمیان میں حائل نہ ہوتا تو میں ایسے اُستاد کا شاگرد ہونا اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتا۔
مشتاق احمد یوسفی
پروفیسر انور مسعود کو پہلی بار میں نے دبئی کے اس عالمی مشاعرہ میں دیکھا اور سنا جو میری صدارت میں ہو رہا تھا۔ کلام سنا تو اچھا لگا۔ پڑھنے کا ایسا دلکش انداز کہ ہر لفظ سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ سامعین کی بےساختہ داد سے سارا پنڈال گونج اُٹھا اور واہ واہ سبحان اللہ کی داد سے چھتیں اڑ گئیں۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ گفتگو بھی لچھے دار کرتے ہیں۔ مسکراتا چہرہ اور چہرے پر اخلاص کی روشنی۔ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ موصوف صرف شاعر ہی نہیں صاحبِ علم بھی ہیں۔ وسیع المطالعہ، لفظوں کے پارکھ اور فارسی ادب کے استاد۔ فارسی ایسے بولتے ہیں جیسے شعر سنا رہے ہوں۔ آج دُنیا بھر میں ان کی مانگ ہے اور وہ مشاعروں کی جان ہیں۔ جدید و قدیم فارسی ادب پر ایسی نظر کہ کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ خوش مزاج، خوش نظر اور خوش فکر بھی۔ آپ جب یہ مضامین پڑھیں گے تو میرے ہم نوا ہو کر پروفیسر انور مسعود کے نقد و نظر کے قائل ہو جائیں گے اور میری طرح ان کو مشورہ دیں گے کہ حضرت شاعری بہت کر چکے، اب پوری سنجیدگی اور دلجمعی سے ایسے ہی مضامین اور لکھیے جیسے اس کتاب میں ہیں۔ شعر فارسی کی جیسی پرکھ آپ کو ہے ایسے اس دورِ نابکار میں کہاں؟ ان مضامین کو پڑھ کر ہمارا ذوقِ ادب نکھرتا اور پروان چڑھتا ہے اور فارسی زبان و ادب سے ہماری دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ فروغِ فرّخ زاد کے بارے میں، جس کی شاعری سے پہلی بار جدید صنعتی و شہری زندگی کا کرب فارسی شاعری کی آواز اور لَے میں شامل ہوا ہے، پروفیسر انور مسعود کا مضمون خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اسی طرح ناقدینِ سبکِ ہندی، میرزا علی اکبر دہخدا، عمر خیام، عشقی اور غنیمت کنجاہی ایسے مضامین ہیں جنھیں فارسی ادب کے شائقین نہایت دلچسپی سے پڑھیں گے۔ فاضل مصنّف کے دلچسپ اندازِ بیان اور تیکھی ناقدانہ نظر نے ساری کتاب میں ایک نئی رُوح پھونک دی ہے۔ میں اس مجموعے کی اشاعت پر پروفیسر انور مسعود کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی
فارسی اور اُردو کے باہمی روابط صدیوں پر محیط ہیں۔ اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں بےشمار فارسی لفظوں کی موجودگی ان گہرے تہذیبی و لسانی اثرات کی نشان دہی کرتی ہے جو یہ نوزائیدہ زبان اپنی پیدائش سے آج تک عہد بہ عہد، اس ترقّی یافتہ اور قدیم زبان سے قبول کرتی رہی ہے۔ اُردو نے فارسی ہی کی آغوش میں پرورش پائی اور اسی زبان کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا۔ ایک زمانہ تھا جب برصغیر میں فارسی کو شاہانِ وقت کی سرپرستی حاصل تھی، ان دنوں فارسی لکھنا اور بولنا بڑی عزت کی بات سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ فارسی زبان کو اگرچہ وہ قدر و منزلت تو حاصل نہیں رہی مگر پھر بھی بڑی مدّت تک اس زبان کا شعر و ادب یہاں کے صاحبانِ ذوق کی آنکھ کا سرمہ بنا رہا ہے۔ اب اس رجحان میں بھی بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔ آج کے پڑھے لکھے طبقے کی غالب اکثریت کا رجحانِ طبع مشرق سے زیادہ مغرب کی طرف ہے اور یوں وہ لحظہ بہ لحظہ اپنے منابع سے دُور ہوتا جا رہا ہے۔ انور مسعود کے یہ مضامین جو قدیم و جدید فارسی شعر و ادب کے بعض گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالتے ہیں، دراصل اسی قدیم رُوح کی باز آفرینی اور اپنے اصل کی طرف مراجعت کی تکمیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کام صرف وہی شخص کر سکتا تھا جو نہ صرف دونوں زبانوں کی تاریخ اور ان کے ادبی مزاج کا نکتہ شناس ہو بلکہ بحیثیتِ شاعر ان زبانوں کے شعر و ادب کے رموز کا عملی ادراک بھی رکھتا ہو۔ یہ مضامین چونکہ ایک شگفتہ اور دل پذیر اسلوب میں تمام کیے گئے ہیں، اس لیے مکمل ابلاغ کی کیفیت کے ساتھ قاری کو تا دیر متاثر کرنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر توصیف تبسّم
بےشک معاصر پنجابی ادب میں انور مسعود کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی کسی رسمی تعارف کا محتاج نہیں لیکن شاید بہت کم معاصرین اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ سوہنی کے دیس کا یہ مہینوال (بحوالہ اس کی مشہورِ زمانہ نظم انارکلی دی َمجھ) پنجابی میں نہیں بلکہ فارسی میں گولڈ میڈلسٹ ہے۔ اس کے فارسی کے ہم درس یہ بات کبھی فراموش نہیں کر سکتے کہ تقریباً ربع صدی پیشتر جب وہ ایم اے فارسی کا ممتاز ترین طالب علم تھا، آسمانِ فارسی پر ایک درخشندہ ستارہ بن کر نمودار ہوا اور اس کے زیرِ نظر مقالات کی چمک دمک نے اربابِ دانش اور اصحابِ بینش کی نظروں کو خیرہ کر دیا تھا۔فارسی زبان و ادب سے متعلّق اس مجموعہ مقالات کی طباعت و اشاعت اس پر قرض بھی تھی اور فرض بھی، سو اس نے اپنا یہ فرض نہایت عمدگی سے نبھایا اور یہ قرض بڑی خوش اسلوبی سے چکایا ہے۔میرے نزدیک اس کے یہ مقالات ایک ایسی رنگین کمان (Rainbow) ہے جس نے آسمانِ فارسی کا مکمّل احاطہ کر رکھا ہے اور اپنے خوش منظر رنگوں کے حسین امتزاج کی بنا پر فارسی زبان و ادب کے شائقین کے لیے سراپا دعوتِ نظاّرہ بلکہ جنّت نگاہ ہے۔ادبی چاشنی سے بھرپور اور علمی حُسن سے معمور ان مقالات پر مفصل تبصرے کا یہ محل نہیں۔ مختصر یہ کہ
ز پاے تا بسرش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست