RUMI IQBAL AUR TENNIS
By: Dr. Khwaja Abdul Hameed Irfani
-
Rs 2,500.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
خواجه عبد الحمید عرفانی (1990-1907) کی خود نوشت برصغیر کی ہزار سالہ ادبی اور معنوی وراثت کی داستان ہے جسے ایران کے مبلغین، عارفین ، شعرا اور صوفیا نے سیراب کیا۔ اور جسے بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے مولانا رومی کو رفیق راہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے روح پرور کلام میں بازیافت کیا۔
قیام پاکستان کے بعد خواجہ عبدالحمید عرفانی نے ایرانیوں کو اقبال کے فارسی کلام کے ذریعے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ، ایران کے ادبی ، سیاسی ، مذہبی اور سماجی حلقوں میں پاکستان سے متعلق ان غلط فہمیوں کو دور کیا، جس کے تحت گاندھی اور نہرو کو برصغیر کی آزادی کا علمبردار اور پاکستان کو انگریز حکومت کی سازش کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔
اگرچہ ڈاکٹر عرفانی کے معنوی عشق کا سفر تا حیات جاری رہا، ایران میں اس کے گہرے اثر کا سبب سیاسی اور فکری پس منظر تھا، جہاں وزیراعظم محمد مصدق کی انگریز استعمار کے خلاف عوامی تحریک ایک اہم محرک تھی۔ عرفانی کو جس وسیع پیمانے پر ایران میں رسائی ہوئی، اس میں عرفانی کو مظہر مکتب اقبال ہونے کے علاوہ ٹینس میں اعلیٰ پائے کے کھلاڑی ہونے کا بھی اہم رول تھا جس کے ناطے عرفانی کے پیغام ہمدلی کو ادبی مجلسوں کے علاوہ، ورزشی دنیا، شاہی خاندان اور سول اور ملٹری افسروں تک رسائی ہوئی۔ اور دونوں ملکوں کے مابین باہمی استحکام کی فضا برقرار رکھنے کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔
دور حاضر کے نوجوان، بالخصوص فارسی کے شایقین کے لیے قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی یہ خود نوشت ہماری معاصر ادبی تاریخ کی ایک یادگار ہے جو رومی، اقبال اور دیگر فارسی شعرا کے سوز دروں سے پھوٹی اور اب بزم رومی سیالکوٹ کے گوشتہ فراموشی سے بازیافت کر دی گئی ہے۔
سروش عرفانی
لاہور اگست 202
خواجه عبد الحمید عرفانی (1990-1907) کی خود نوشت برصغیر کی ہزار سالہ ادبی اور معنوی وراثت کی داستان ہے جسے ایران کے مبلغین، عارفین ، شعرا اور صوفیا نے سیراب کیا۔ اور جسے بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے مولانا رومی کو رفیق راہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے روح پرور کلام میں بازیافت کیا۔
قیام پاکستان کے بعد خواجہ عبدالحمید عرفانی نے ایرانیوں کو اقبال کے فارسی کلام کے ذریعے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ، ایران کے ادبی ، سیاسی ، مذہبی اور سماجی حلقوں میں پاکستان سے متعلق ان غلط فہمیوں کو دور کیا، جس کے تحت گاندھی اور نہرو کو برصغیر کی آزادی کا علمبردار اور پاکستان کو انگریز حکومت کی سازش کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔
اگرچہ ڈاکٹر عرفانی کے معنوی عشق کا سفر تا حیات جاری رہا، ایران میں اس کے گہرے اثر کا سبب سیاسی اور فکری پس منظر تھا، جہاں وزیراعظم محمد مصدق کی انگریز استعمار کے خلاف عوامی تحریک ایک اہم محرک تھی۔ عرفانی کو جس وسیع پیمانے پر ایران میں رسائی ہوئی، اس میں عرفانی کو مظہر مکتب اقبال ہونے کے علاوہ ٹینس میں اعلیٰ پائے کے کھلاڑی ہونے کا بھی اہم رول تھا جس کے ناطے عرفانی کے پیغام ہمدلی کو ادبی مجلسوں کے علاوہ، ورزشی دنیا، شاہی خاندان اور سول اور ملٹری افسروں تک رسائی ہوئی۔ اور دونوں ملکوں کے مابین باہمی استحکام کی فضا برقرار رکھنے کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔
دور حاضر کے نوجوان، بالخصوص فارسی کے شایقین کے لیے قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی یہ خود نوشت ہماری معاصر ادبی تاریخ کی ایک یادگار ہے جو رومی، اقبال اور دیگر فارسی شعرا کے سوز دروں سے پھوٹی اور اب بزم رومی سیالکوٹ کے گوشتہ فراموشی سے بازیافت کر دی گئی ہے۔
سروش عرفانی
لاہور اگست 202